دھوکا ہمیں لگا یا موصوف مولانا محمد عاقل صاحب منظر اسلام بریلی شریف کو ؟
:--------------:
ہم نے واقعات کربلا پر جو کچھ بھی لکھا ہے اس میں ہم نے یہ جملہ کہیں استعمال نہیں فرمایا کہ صرف ایک دن پانی بند رہا، یہ ہم پر کھلا جھوٹ و بہتان ہے، مولانا موصوف محمد عاقل صاحب نے کہا ہے، ہمیں لفظ اغتسل سے دھوکا لگا ہے چونکہ اس کے ساتھ اس کا صلہ یعنی بالماء مذکور نہیں ہے اس لیۓ اس کے معنی خوشبو لگانے کے ہیں۔ حالانکہ مولانا موصوف کو یہ بات معلوم ہونا چاہے کہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ تو نہیں، اگر یہاں اغتسل کے معنی خوشبو لگانا ہی ہے، تو پھر کیا یہ دھوکا فقیہ ہند علامہ مفتی شریف الحق رحمہ اللہ کو بھی لگا، ؟ چونکہ انہوں نے فتاوی شارح بخاری میں اغتسل کے معنی غسل کرنا لیا ہے،
(فتاویٰ شارح بخاری جلد 2 صفحہ 68)
کیا مفتی شریف الحق صاحب بھی نہیں جانتے تھے اس بات کو کہ یہاں خوشبو لگانا کے معنی ہیں؟ اور آپ سمجھ گۓ
اور کیا یہ دھوکا حضرت علامہ شیخ الحدیث مفتی محقق غلام رسول قاسمی صاحب کو بھی لگا ؟ (سانحہ کربلا صفحہ 8)
چونکہ انہوں نے بھی اس سے غسل کرنے کے معنی لیۓ ہیں۔ان دونوں بزرگوں کو بھی دھوکا لگا ہے کہنے کے بجاۓ آپ یہ کہدیں کے مجھے دھوکا لگا بہتر یہی ہوگا۔
بات در اصل یہ ہے آپ کو یہ وہم ہوا ہے کے اغتسل کے ساتھ جب بالماء ہوگا تب غسل کا معنی لیا جاۓ گا، اور شاید آپ نے اس کو قاعدہ کلیہ سمجھ لیا مگر آپ کا یہ وہم و گمان ہر گز صحیح نہیں ہے، بعض اوقات بالماء محذوف ہو تو بھی اس کے معنی غسل کے ہوں گے، آپ کے اس وہم کو سنن ابو داؤد کی اس روایت سے دور کرتا ہوں،
- عن عبد الله بن عمرو بن العاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب امرأته إن كان لها، ولبس من صالح ثيابه، ثم لم يتخط رقاب الناس، ولم يلغ عند الموعظة كانت كفارة لما بينهما، ومن لغا وتخطى رقاب الناس كانت له ظهرا (سنن ابو داؤد حدیث 347)
اس روایت میں کلمہ طیب موجود ہے بالماء محذوف ہے، مگر اس روایت کے معنی یہاں وہ نہیں ہیں جو آپ نے وہم کیا ہے خوشبو لگانے کے بلکہ یہاں اس کے معنی غسل کرنا اور خوشبو لگانا ہیں، ہو سکتا ہے شاید آپ کہیں یہاں آپ نے خود سے اغتسل سے غسل کے معنی لیۓ ہیں، تو یہ بھی غلط ہے، چونکہ مکحول نے اغتسل کے معنی غسل کے لیۓ ہیں۔ علی بن خوشب کہتے ہیں کہ۔
سالت مکحولا عن ھاذا القول غسل و اغتسل فقال غسل راسہ و غسل جسدہ
میں نے مکحول سے پوچھا کہ غسل اور اغتسل کا کیا مطلب ہے فرمایا غسل کا معنی ہے اپنا سر دھونا اور اغتسل کا معنی ہے اپنا جسم دھونا،
امید کرتا ہوں مولانا موصوف کو جو وہم ہوا تھا وہ دور ہو جاۓ گا۔، مولانا موصوف اگر بدایہ کی اسی عبارت پر ہی غور فرماتے تو ہر گز ایسی بات نہ کہتے، اس عبارت میں ہرتال چونا جسم پر لگانے کا ذکر ہے اور موصوف کو یہ معلوم ہونا چاہئے تھا ہرتال وغیرہ کا استعمال جسم کی صاف صفائی کے لیۓ ہوتا، اس کو پانی میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے کے فتاوی رضویہ میں ہے، کیا مولانا موصوف بتائیں گے ایسا کونسا انسان ہے، یا مولانا موصوف نے کبھی خود ایسا کام کیا ہو کہ، جس چیز کو جسم کی صاف صفائی کے لیۓ استعمال کیا جاتا ہو، وہ جسم پر لگانے کے بعد جسم کو نہ دھویا ہو بلکہ اس پر خوشبو لگا لی ہو، ظاہر بات ہے ایسا ہرگز کوئی نہیں کرتا بلکہ جسم پر پانی ڈالتا ہے تاکہ وہ صاف ہوجاۓ ، تو بس یہی تو امام عالی مقام نے کیا تھا، ہرتا چونا پانی ہی سے صاف ہوتا ہے جب اس بات پر قرینہ موجود ہے تو پھر بالماء کا لفظ لانے کی کیا ضرورت ہے ، ہرتال چونا پانی ہی سے صاف ہوتا ہے، اسی لیۓ وہاں بالماء محذوف ہے، اس عبارت میں بالطیب کا ذکر کرنا لازم تھا اگر ذکر نہ ہوتا تو خوشبو کے معنی کہاں سے لیۓ جاتے جبکہ اس پر قرینہ موجود بھی نہیں، مگر ہرتا چونا یہ قرینہ موجود ہے پانی سے صاف ہونے کا جس وجہ سے بالماء کو محذوف کردیا،۔ موصوف اتنی بات بھی نہ سمجھ سکیں۔
اگر اتنی عبارت پر ہی غور کرلیا جاتا تو موصوف دھوکا نہ کھاتے، اور نہ موصوف کو تحریر کرنے کی پریسانی برداشت کرنی پڑتی اور ایک بات موصوف کو ہماری اغتسل والی عبارت تو نظر آئی مگر حضرت زینب کے بے ہوش ہونے پر ان کے چہرے پر پانی ڈالنے والی نظر نہیں آئی ، ایسا لگتا ہے جیسے کی یہ روایت گلے میں ہڈی کی مثل اٹک گئ ہو نہ نگلنے کے نا اگلنے کے،
اور یہ روایت تو طبری بدایہ الکامل وغیرہ سب میں ہے،
تین دن پانی نہیں تھا تو یہ پانی کہاں سے آگیا ؟ اس کو حضرت نے نظر انداز کردیا حالانکہ ہم نے اس میں متعدد حوالے دیۓ ہیں۔
اور ہم نے شیعوں کی کتب سے بھی پانی ہونا ثابت کیا ہے اس تحریر میں،
ہم آپ کو یہ بھی بتادیں ہم کل بھی مسلک اعلیٰ حضرت کے پابند تھے اور آج بھی پابند ہیں، ہمارا موقف وہی ہوتا ہے جو امام اہلسنت کا ہو،
ہم نے کوئی یہ بات اپنی طرف سے تو نہیں کہی ہم نے تو اپنے اسلاف کی عبارتیں سامنے رکھی ہیں، اسی کو بیان کیا ہے،، اگر آپ اس بات کو بغاوت سمجھتے ہیں، اگر یہ بغاوت ہے بقول آپ کے تو یہ بغاوت تو پھر امام اہلسنت نے بھی کی ہے متعدد مسائل میں بزرگوں سے اختلاف کیا ہے اور بعد والے بزرگوں نے امام اہلسنت سے کیا ہے۔
تو یہی بات جو آپ نے ہمارے لیۓ کہی ہے کیا اعلیٰ حضرت کے لیۓ اور ان بزرگوں کے لیۓ بھی کہیں گے؟
حقیقت یہ ہے جب انسان پر خود ساختہ محقق بننے کا جنون سوار ہوتا ہے، تو وہ ایسی ہی الٹی سیدھی تاولیں کرتا ہے، جیسا کی یوگا والے مسئلہ میں الٹی سیدھی تاولیں کیں تھی اور کہا اس کی تائید حضور تاج الشریعہ رحمہ اللہ کے جواب سے ہوتی ہے ،مصروفیات کی وجہ سے اس پر کچھ لکھ نہ سکا اور جب بندہ
انصاف کی نظر سے دیکھنا بند کردیتا ہے
شخصیت پرستی کا اس پر بھوت سوار ہو حد سے زیادہ محبت میں غلو کرنے لگے
تو اس کو ہر جگہ مخالفت اور بغاوت ہی نظر آتی ہے، پھر اس کو ہر شخص راہ راست سے بھٹکا ہوا نظر آنے لگتا ہے اور وہ اپنے گمان میں یہ سوچنے لگتا ہے میں سب سے زیادہ عمل پیرا ہوں، میرے علاوہ دوسرا بزرگوں کے نقش قدم پر چل ہی نہیں رہا ، اور جب وہ ایسا سوچنے لگتا ہے، تبھی سے اس کے لیۓ ذلت و رسوائی کے دن شروع ہو جاتے ہیں۔
اور آخر میں یہی کہوں گا اگر کسی سے کوئی اختلاف ہو تو محبت ادب اور پیار کے ساتھ اس کو جواب دینا چاہے ، اگر سخت الفاظ استعمال کریں گے تو سخت کلمات سننا بھی پڑیں گے برداشت بھی کرنا پڑیں گے۔
اللہ نے ہمیں بھی بولنے کے لیۓ زبان اور لکھنے کے لیۓ ہاتھ دیۓ ہیں، باقی میں اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتا کون کیا کہے گا میں حق گو انسان ہوں حق کے معاملات میں کبھی نہیں دبتا، واقعات کربلا پر ہزار بار لکھنا پڑھا تو ہزار بار لکھیں گے، جس کو برا لگتا ہو لگے حق پہنچانا ہمارا کام ہے ماننا نہ ماننا قبول کرنا نہ کرنا یہ دوسروں کا کام ہے،، اگلی بار اگر میری کسی بھی تحریر سے کوئی اختلاف ہو الفاظ کا چناؤ اچھا ہونا چاہئے ورنہ یاد رکھیں جی حضوری شخصیت پرستی میرے خون میں شامل نہیں،
اللہ کریم ہمیں آخری دم تک مسلک اعلیٰ حضرت پر قائم رکھے
حق بولنے لکھنے سننے اور دیکھنے کی توفیق عطا فرماۓ
:--------------:
ہم نے واقعات کربلا پر جو کچھ بھی لکھا ہے اس میں ہم نے یہ جملہ کہیں استعمال نہیں فرمایا کہ صرف ایک دن پانی بند رہا، یہ ہم پر کھلا جھوٹ و بہتان ہے، مولانا موصوف محمد عاقل صاحب نے کہا ہے، ہمیں لفظ اغتسل سے دھوکا لگا ہے چونکہ اس کے ساتھ اس کا صلہ یعنی بالماء مذکور نہیں ہے اس لیۓ اس کے معنی خوشبو لگانے کے ہیں۔ حالانکہ مولانا موصوف کو یہ بات معلوم ہونا چاہے کہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ تو نہیں، اگر یہاں اغتسل کے معنی خوشبو لگانا ہی ہے، تو پھر کیا یہ دھوکا فقیہ ہند علامہ مفتی شریف الحق رحمہ اللہ کو بھی لگا، ؟ چونکہ انہوں نے فتاوی شارح بخاری میں اغتسل کے معنی غسل کرنا لیا ہے،
(فتاویٰ شارح بخاری جلد 2 صفحہ 68)
کیا مفتی شریف الحق صاحب بھی نہیں جانتے تھے اس بات کو کہ یہاں خوشبو لگانا کے معنی ہیں؟ اور آپ سمجھ گۓ
اور کیا یہ دھوکا حضرت علامہ شیخ الحدیث مفتی محقق غلام رسول قاسمی صاحب کو بھی لگا ؟ (سانحہ کربلا صفحہ 8)
چونکہ انہوں نے بھی اس سے غسل کرنے کے معنی لیۓ ہیں۔ان دونوں بزرگوں کو بھی دھوکا لگا ہے کہنے کے بجاۓ آپ یہ کہدیں کے مجھے دھوکا لگا بہتر یہی ہوگا۔
بات در اصل یہ ہے آپ کو یہ وہم ہوا ہے کے اغتسل کے ساتھ جب بالماء ہوگا تب غسل کا معنی لیا جاۓ گا، اور شاید آپ نے اس کو قاعدہ کلیہ سمجھ لیا مگر آپ کا یہ وہم و گمان ہر گز صحیح نہیں ہے، بعض اوقات بالماء محذوف ہو تو بھی اس کے معنی غسل کے ہوں گے، آپ کے اس وہم کو سنن ابو داؤد کی اس روایت سے دور کرتا ہوں،
- عن عبد الله بن عمرو بن العاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من اغتسل يوم الجمعة ومس من طيب امرأته إن كان لها، ولبس من صالح ثيابه، ثم لم يتخط رقاب الناس، ولم يلغ عند الموعظة كانت كفارة لما بينهما، ومن لغا وتخطى رقاب الناس كانت له ظهرا (سنن ابو داؤد حدیث 347)
اس روایت میں کلمہ طیب موجود ہے بالماء محذوف ہے، مگر اس روایت کے معنی یہاں وہ نہیں ہیں جو آپ نے وہم کیا ہے خوشبو لگانے کے بلکہ یہاں اس کے معنی غسل کرنا اور خوشبو لگانا ہیں، ہو سکتا ہے شاید آپ کہیں یہاں آپ نے خود سے اغتسل سے غسل کے معنی لیۓ ہیں، تو یہ بھی غلط ہے، چونکہ مکحول نے اغتسل کے معنی غسل کے لیۓ ہیں۔ علی بن خوشب کہتے ہیں کہ۔
سالت مکحولا عن ھاذا القول غسل و اغتسل فقال غسل راسہ و غسل جسدہ
میں نے مکحول سے پوچھا کہ غسل اور اغتسل کا کیا مطلب ہے فرمایا غسل کا معنی ہے اپنا سر دھونا اور اغتسل کا معنی ہے اپنا جسم دھونا،
امید کرتا ہوں مولانا موصوف کو جو وہم ہوا تھا وہ دور ہو جاۓ گا۔، مولانا موصوف اگر بدایہ کی اسی عبارت پر ہی غور فرماتے تو ہر گز ایسی بات نہ کہتے، اس عبارت میں ہرتال چونا جسم پر لگانے کا ذکر ہے اور موصوف کو یہ معلوم ہونا چاہئے تھا ہرتال وغیرہ کا استعمال جسم کی صاف صفائی کے لیۓ ہوتا، اس کو پانی میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے کے فتاوی رضویہ میں ہے، کیا مولانا موصوف بتائیں گے ایسا کونسا انسان ہے، یا مولانا موصوف نے کبھی خود ایسا کام کیا ہو کہ، جس چیز کو جسم کی صاف صفائی کے لیۓ استعمال کیا جاتا ہو، وہ جسم پر لگانے کے بعد جسم کو نہ دھویا ہو بلکہ اس پر خوشبو لگا لی ہو، ظاہر بات ہے ایسا ہرگز کوئی نہیں کرتا بلکہ جسم پر پانی ڈالتا ہے تاکہ وہ صاف ہوجاۓ ، تو بس یہی تو امام عالی مقام نے کیا تھا، ہرتا چونا پانی ہی سے صاف ہوتا ہے جب اس بات پر قرینہ موجود ہے تو پھر بالماء کا لفظ لانے کی کیا ضرورت ہے ، ہرتال چونا پانی ہی سے صاف ہوتا ہے، اسی لیۓ وہاں بالماء محذوف ہے، اس عبارت میں بالطیب کا ذکر کرنا لازم تھا اگر ذکر نہ ہوتا تو خوشبو کے معنی کہاں سے لیۓ جاتے جبکہ اس پر قرینہ موجود بھی نہیں، مگر ہرتا چونا یہ قرینہ موجود ہے پانی سے صاف ہونے کا جس وجہ سے بالماء کو محذوف کردیا،۔ موصوف اتنی بات بھی نہ سمجھ سکیں۔
اگر اتنی عبارت پر ہی غور کرلیا جاتا تو موصوف دھوکا نہ کھاتے، اور نہ موصوف کو تحریر کرنے کی پریسانی برداشت کرنی پڑتی اور ایک بات موصوف کو ہماری اغتسل والی عبارت تو نظر آئی مگر حضرت زینب کے بے ہوش ہونے پر ان کے چہرے پر پانی ڈالنے والی نظر نہیں آئی ، ایسا لگتا ہے جیسے کی یہ روایت گلے میں ہڈی کی مثل اٹک گئ ہو نہ نگلنے کے نا اگلنے کے،
اور یہ روایت تو طبری بدایہ الکامل وغیرہ سب میں ہے،
تین دن پانی نہیں تھا تو یہ پانی کہاں سے آگیا ؟ اس کو حضرت نے نظر انداز کردیا حالانکہ ہم نے اس میں متعدد حوالے دیۓ ہیں۔
اور ہم نے شیعوں کی کتب سے بھی پانی ہونا ثابت کیا ہے اس تحریر میں،
ہم آپ کو یہ بھی بتادیں ہم کل بھی مسلک اعلیٰ حضرت کے پابند تھے اور آج بھی پابند ہیں، ہمارا موقف وہی ہوتا ہے جو امام اہلسنت کا ہو،
ہم نے کوئی یہ بات اپنی طرف سے تو نہیں کہی ہم نے تو اپنے اسلاف کی عبارتیں سامنے رکھی ہیں، اسی کو بیان کیا ہے،، اگر آپ اس بات کو بغاوت سمجھتے ہیں، اگر یہ بغاوت ہے بقول آپ کے تو یہ بغاوت تو پھر امام اہلسنت نے بھی کی ہے متعدد مسائل میں بزرگوں سے اختلاف کیا ہے اور بعد والے بزرگوں نے امام اہلسنت سے کیا ہے۔
تو یہی بات جو آپ نے ہمارے لیۓ کہی ہے کیا اعلیٰ حضرت کے لیۓ اور ان بزرگوں کے لیۓ بھی کہیں گے؟
حقیقت یہ ہے جب انسان پر خود ساختہ محقق بننے کا جنون سوار ہوتا ہے، تو وہ ایسی ہی الٹی سیدھی تاولیں کرتا ہے، جیسا کی یوگا والے مسئلہ میں الٹی سیدھی تاولیں کیں تھی اور کہا اس کی تائید حضور تاج الشریعہ رحمہ اللہ کے جواب سے ہوتی ہے ،مصروفیات کی وجہ سے اس پر کچھ لکھ نہ سکا اور جب بندہ
انصاف کی نظر سے دیکھنا بند کردیتا ہے
شخصیت پرستی کا اس پر بھوت سوار ہو حد سے زیادہ محبت میں غلو کرنے لگے
تو اس کو ہر جگہ مخالفت اور بغاوت ہی نظر آتی ہے، پھر اس کو ہر شخص راہ راست سے بھٹکا ہوا نظر آنے لگتا ہے اور وہ اپنے گمان میں یہ سوچنے لگتا ہے میں سب سے زیادہ عمل پیرا ہوں، میرے علاوہ دوسرا بزرگوں کے نقش قدم پر چل ہی نہیں رہا ، اور جب وہ ایسا سوچنے لگتا ہے، تبھی سے اس کے لیۓ ذلت و رسوائی کے دن شروع ہو جاتے ہیں۔
اور آخر میں یہی کہوں گا اگر کسی سے کوئی اختلاف ہو تو محبت ادب اور پیار کے ساتھ اس کو جواب دینا چاہے ، اگر سخت الفاظ استعمال کریں گے تو سخت کلمات سننا بھی پڑیں گے برداشت بھی کرنا پڑیں گے۔
اللہ نے ہمیں بھی بولنے کے لیۓ زبان اور لکھنے کے لیۓ ہاتھ دیۓ ہیں، باقی میں اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتا کون کیا کہے گا میں حق گو انسان ہوں حق کے معاملات میں کبھی نہیں دبتا، واقعات کربلا پر ہزار بار لکھنا پڑھا تو ہزار بار لکھیں گے، جس کو برا لگتا ہو لگے حق پہنچانا ہمارا کام ہے ماننا نہ ماننا قبول کرنا نہ کرنا یہ دوسروں کا کام ہے،، اگلی بار اگر میری کسی بھی تحریر سے کوئی اختلاف ہو الفاظ کا چناؤ اچھا ہونا چاہئے ورنہ یاد رکھیں جی حضوری شخصیت پرستی میرے خون میں شامل نہیں،
اللہ کریم ہمیں آخری دم تک مسلک اعلیٰ حضرت پر قائم رکھے
حق بولنے لکھنے سننے اور دیکھنے کی توفیق عطا فرماۓ
:----------------------:
کتبہ:- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ہلدوانی نینیتال،
کتبہ:- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ہلدوانی نینیتال،