(سوال نمبر 223)
زید نے ہندہ کو 4 طلاق دے دیا ہندہ کہہ رہی ہے میں 2 مرتبہ سنی ہوں کیا طلاق واقع ہو گئی؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
زید نے ہندہ کو 4 طلاق دے دیا ہندہ کہہ رہی ہے میں 2 مرتبہ سنی ہوں کیا طلاق واقع ہو گئی؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
علمائے دین کی بارگاہ میں ایک سوال ہے زید نے ہندہ کو ۴طلاق دے دیا ہندہ کہ رہی ہے میں ۲ مرتبہ سنی ہوں کیا طلاق واقع ہو گئی مع حوا لہ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-معراج احمد المعروف تا بش رضا مساوی سیتا مڑھی بہار انڈیا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ
زید نے بہوش و حواس ہندہ کو ایک ساتھ چار طلاق دے دیا ہے (بایں طور کہ زید نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تچھے چار طلاق دیدیا)
اگرچہ ہندہ دو ہی سنی مذکورہ مسئولہ میں ہندہ پرطلاق مغلظہ واقع ہوگئی۔ہندہ کا سننا یا نہ سننا باب طلاق میں کوئی فرق نہیں۔کیونکہ قرآن وسنت کی رو سے طلاق دینا خاوند کے اختیار میں ہے۔البتہ ہندہ اگر شرعی شہادت پیش کردے اور زید اقرار بھی کرلے کہ میں نے دو طلاق دیا ہے، پھر بھی زید کے قول کا اعتبار کیا جائے گا کہ اس نے دو طلاق سے اگر طلاق رجعی مراد لیا ہے تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے اگر بائن لیا یے تو بعد عدت نکاح کر سکتا ہے،
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اگر کسی نے اپنے بیوی سے کہا تجھے ہزاروں طلاق تو تین طلاق واقع ہوگی
(بہار شریعت ح 8ص 126دعوت اسلامی الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الطلاق،باب الصریح،مطلب:في قول الامامإلخ،ج ۴ ،ص ۴۹۱)
لہذا زید و ہندہ پر زوج و زوجہ کی طرح تعلق قائم کر نا حرام ہے اور قطع تعلق کرنا فرض ہے ،اب زید رجوع کا بھی حق کھو چکا ہےاس لیے بدون حلالہ رجوع بھی نہیں کر سکتے، زید اور اس کی بیوی ایک دوسرے کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتے‘ سوائے اس کے کہ زید کی مطلقہ بیوی بعد العدت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور وہاں سے بیوہ یا مطلقہ ہو جائے یا خلع لے یا پھر بذریعہ قاضی شرعی تنسیخِ نکاح ہو تو عدت مکمل کر کے زید ہندہ سے نکاح کر سکتا ہے۔ مگر یہ دوسرے مرد سے شادی اور نکاح کے ختم ہونے کا سارا عمل منصوبہ بند نہیں ہونی چاہئے بلکہ اتفاقی ہونا چاہیے۔ اگر پہلے سے منصوبہ بندی کر کے ایسا کیا گیا تو دوسرے شخص سے زید کی بیوی کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا اور سارا عمل حرام در حرام کے زمرے میں آئیں گے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرما تا ہے
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ. (البقرۃ، 2 : 230)
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے،
والله ورسوله أعلم بالصواب
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيبال. ٣١٢/٢٠٢٠
سائل:-معراج احمد المعروف تا بش رضا مساوی سیتا مڑھی بہار انڈیا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ
زید نے بہوش و حواس ہندہ کو ایک ساتھ چار طلاق دے دیا ہے (بایں طور کہ زید نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تچھے چار طلاق دیدیا)
اگرچہ ہندہ دو ہی سنی مذکورہ مسئولہ میں ہندہ پرطلاق مغلظہ واقع ہوگئی۔ہندہ کا سننا یا نہ سننا باب طلاق میں کوئی فرق نہیں۔کیونکہ قرآن وسنت کی رو سے طلاق دینا خاوند کے اختیار میں ہے۔البتہ ہندہ اگر شرعی شہادت پیش کردے اور زید اقرار بھی کرلے کہ میں نے دو طلاق دیا ہے، پھر بھی زید کے قول کا اعتبار کیا جائے گا کہ اس نے دو طلاق سے اگر طلاق رجعی مراد لیا ہے تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے اگر بائن لیا یے تو بعد عدت نکاح کر سکتا ہے،
مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اگر کسی نے اپنے بیوی سے کہا تجھے ہزاروں طلاق تو تین طلاق واقع ہوگی
(بہار شریعت ح 8ص 126دعوت اسلامی الدرالمختار و ردالمحتار کتاب الطلاق،باب الصریح،مطلب:في قول الامامإلخ،ج ۴ ،ص ۴۹۱)
لہذا زید و ہندہ پر زوج و زوجہ کی طرح تعلق قائم کر نا حرام ہے اور قطع تعلق کرنا فرض ہے ،اب زید رجوع کا بھی حق کھو چکا ہےاس لیے بدون حلالہ رجوع بھی نہیں کر سکتے، زید اور اس کی بیوی ایک دوسرے کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتے‘ سوائے اس کے کہ زید کی مطلقہ بیوی بعد العدت کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور وہاں سے بیوہ یا مطلقہ ہو جائے یا خلع لے یا پھر بذریعہ قاضی شرعی تنسیخِ نکاح ہو تو عدت مکمل کر کے زید ہندہ سے نکاح کر سکتا ہے۔ مگر یہ دوسرے مرد سے شادی اور نکاح کے ختم ہونے کا سارا عمل منصوبہ بند نہیں ہونی چاہئے بلکہ اتفاقی ہونا چاہیے۔ اگر پہلے سے منصوبہ بندی کر کے ایسا کیا گیا تو دوسرے شخص سے زید کی بیوی کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوگا اور سارا عمل حرام در حرام کے زمرے میں آئیں گے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرما تا ہے
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ. (البقرۃ، 2 : 230)
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتہ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے،
والله ورسوله أعلم بالصواب
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها نيبال. ٣١٢/٢٠٢٠