(سوال نمبر 4200)
بستی والی کمیٹی ڈالنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
آج کل اکثر و بیشتر جگہ کے لوگ کئ لوگ ملکر ایک جگہ پیسہ اکٹھا کرتے ہیں ۔اور پھر ڈاک (بڑھکر بولی لگانے والا) کیذریعہ اس پیسہ کو ایک آدمی کو دیدیتے ہیں ۔جو شخص پہلی بار پیسہ اٹھاتا ہے اسے جمع کیجانیوالی رقم سے بہت کم ملتا ہے ۔
کیا یہ سود و حرام میں داخل ہے یا نہیں؟
2_سود کے حوالے سے احادیث کریمہ نیز چند نصیحت آموز باتیں و حکایتیں جس کے ذریعہ عوام کو سمجھنے سمجھانے میں آسانی ہو اور اسکے نقصانات کو سمجھکر پھر ہمیشہ کے لئے وہ بندہ اس تائب ہو جاۓ۔
سائل:- محمد مجاہد الاسلام نوادہ بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت چائز نہیں ہے جس کا جتنا پیسہ جمع ہے اسے اتنا ملنا ضروری ہے کم لینا اور دینا بولی لگا کر یہ شرعا جائز نہیں ہے کہ زیادہ لینا ایک قسم کا سود ہے اور کم دینا حقوق العباد میں گرفتار اور ظلم ہے۔
ہر ممبر کی رضا سے بوقت ضرورت کسی ایک کو دے دی جائے پھر بعد میں ہر ایک کو مکمل مکمل جمع شدہ رقم ملے پھر جواز کی گنجائش ہے۔
قرآن مجید میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے
واحل اللہ البیع وحرم الربوا
اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام ۔
ایسے فاضل مال کو لینا دینا اپنے استعمال میں لانا یا دینی و دنیاوی کاموں میں استعمال کرنا حرام قطعی گناہ کبیرہ ہے ۔
50 پیسے اس طور
پر لے گا تو گناہ گار و مستحق عذاب نار ہوگا
١/ حدیث پاک میں ہے
سود 73 گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے ۔
٢/ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے پر لعنت فرمائ ۔
٣/ رسول اللہ نے سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی ۔
اس حدیث پاک کو سامنے رکھئے اور خود فیصلہ کیجئے کہ مذکورہ صورت سود ہے اور سود لینا کیسا ہے یہ فعل حرام قطعی اور گناہ کبیرہ ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
بستی والی کمیٹی ڈالنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
آج کل اکثر و بیشتر جگہ کے لوگ کئ لوگ ملکر ایک جگہ پیسہ اکٹھا کرتے ہیں ۔اور پھر ڈاک (بڑھکر بولی لگانے والا) کیذریعہ اس پیسہ کو ایک آدمی کو دیدیتے ہیں ۔جو شخص پہلی بار پیسہ اٹھاتا ہے اسے جمع کیجانیوالی رقم سے بہت کم ملتا ہے ۔
کیا یہ سود و حرام میں داخل ہے یا نہیں؟
2_سود کے حوالے سے احادیث کریمہ نیز چند نصیحت آموز باتیں و حکایتیں جس کے ذریعہ عوام کو سمجھنے سمجھانے میں آسانی ہو اور اسکے نقصانات کو سمجھکر پھر ہمیشہ کے لئے وہ بندہ اس تائب ہو جاۓ۔
سائل:- محمد مجاہد الاسلام نوادہ بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت چائز نہیں ہے جس کا جتنا پیسہ جمع ہے اسے اتنا ملنا ضروری ہے کم لینا اور دینا بولی لگا کر یہ شرعا جائز نہیں ہے کہ زیادہ لینا ایک قسم کا سود ہے اور کم دینا حقوق العباد میں گرفتار اور ظلم ہے۔
ہر ممبر کی رضا سے بوقت ضرورت کسی ایک کو دے دی جائے پھر بعد میں ہر ایک کو مکمل مکمل جمع شدہ رقم ملے پھر جواز کی گنجائش ہے۔
قرآن مجید میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے
واحل اللہ البیع وحرم الربوا
اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام ۔
ایسے فاضل مال کو لینا دینا اپنے استعمال میں لانا یا دینی و دنیاوی کاموں میں استعمال کرنا حرام قطعی گناہ کبیرہ ہے ۔
50 پیسے اس طور
پر لے گا تو گناہ گار و مستحق عذاب نار ہوگا
١/ حدیث پاک میں ہے
سود 73 گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے ۔
٢/ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے پر لعنت فرمائ ۔
٣/ رسول اللہ نے سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی ۔
اس حدیث پاک کو سامنے رکھئے اور خود فیصلہ کیجئے کہ مذکورہ صورت سود ہے اور سود لینا کیسا ہے یہ فعل حرام قطعی اور گناہ کبیرہ ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/08/2023
27/08/2023