باندی کے ساتھ نکاح کرنا کیسا ہے ؟
________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
بغیر نکاح کے باندی کے ساتھ صحبت کرنا جائز ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین و نوازش ہوگی
سائل:- محمد عظیم خان امام رضا مسجد مہرو پور۔
________(❤️)_________
________(❤️)_________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
باندیوں سے نکاح کرنے اور باندی کے نام سے کسی عورت کو رکھنے کی اس زمانہ میں کوئی صورت باقی نہیں ہے۔اس لئے اس زمانہ میں تمام انسان آزاد ہیں کوئی بھی غلام اور باندی نہیں ہے۔البتہ پہلے زمانہ میں جبکہ باندیاں موجود تھیں تو نکاح کیا جاتا تھا وہ دوسرے کی باندی سے کیاجاتا تھا اور یہ جائز تھا۔ اپنی باندی سے نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔بلکہ بغیر نکاح کے اس سے وہی کام کرنا جائز تھا، جو نکاح کے بعد جائز ہوتا ہے جس کی صراحت قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے۔
وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
باندیوں سے نکاح کرنے اور باندی کے نام سے کسی عورت کو رکھنے کی اس زمانہ میں کوئی صورت باقی نہیں ہے۔اس لئے اس زمانہ میں تمام انسان آزاد ہیں کوئی بھی غلام اور باندی نہیں ہے۔البتہ پہلے زمانہ میں جبکہ باندیاں موجود تھیں تو نکاح کیا جاتا تھا وہ دوسرے کی باندی سے کیاجاتا تھا اور یہ جائز تھا۔ اپنی باندی سے نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔بلکہ بغیر نکاح کے اس سے وہی کام کرنا جائز تھا، جو نکاح کے بعد جائز ہوتا ہے جس کی صراحت قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے۔
وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ۔
[سورۃ المؤمنون:۵-۶]
دوسری جگہ پرارشادباری ہے
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْؕ-بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۚ-فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍۚ-فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْؕ-وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(25)
ترجمہ: کنزالایمان
اورتم میں بے مقدوری کے باعث جن کے نکاح میں آزاد عورتیں ایمان والیاں نہ ہوں تو اُن سے نکاح کرے جو تمہارے ہاتھ کی مِلک ہیں ایمان والی کنیزیں اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے تم میں ایک دوسرے سے ہے تو ان سے نکاح کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے اور حسب دستور اُن کے مہر انہیں دو قید میں آتیاں نہ مستی نکالتی اور نہ یار بناتی جب وہ قید میں آجائیں پھر برا کام کریں تو اُن پر اس سزا کی آدھی ہے جو آزاد عورتوں پر ہے یہ اس کے لیے جسے تم میں سے زنا کا اندیشہ ہے اور صبر کرنا تمہارے لیے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
تفسیر: صراط الجنان میں ہے
{وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا:اور تم میں سے جو کوئی قدرت نہ رکھتا ہو۔} جو شخص آزاد عورت سے نکا ح کی قدرت اور وسعت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ کسی مسلمان کی مومِنہ کنیز سے ا س کے مالک کی اجازت کے ساتھ نکاح کر لے۔ اپنی کنیز سے نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مالک کے لئے نکاح کے بغیر ہی حلال ہے۔
دوسری جگہ پرارشادباری ہے
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِؕ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْؕ-بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۚ-فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍۚ-فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْؕ-وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(25)
ترجمہ: کنزالایمان
اورتم میں بے مقدوری کے باعث جن کے نکاح میں آزاد عورتیں ایمان والیاں نہ ہوں تو اُن سے نکاح کرے جو تمہارے ہاتھ کی مِلک ہیں ایمان والی کنیزیں اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے تم میں ایک دوسرے سے ہے تو ان سے نکاح کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے اور حسب دستور اُن کے مہر انہیں دو قید میں آتیاں نہ مستی نکالتی اور نہ یار بناتی جب وہ قید میں آجائیں پھر برا کام کریں تو اُن پر اس سزا کی آدھی ہے جو آزاد عورتوں پر ہے یہ اس کے لیے جسے تم میں سے زنا کا اندیشہ ہے اور صبر کرنا تمہارے لیے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
تفسیر: صراط الجنان میں ہے
{وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا:اور تم میں سے جو کوئی قدرت نہ رکھتا ہو۔} جو شخص آزاد عورت سے نکا ح کی قدرت اور وسعت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ کسی مسلمان کی مومِنہ کنیز سے ا س کے مالک کی اجازت کے ساتھ نکاح کر لے۔ اپنی کنیز سے نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مالک کے لئے نکاح کے بغیر ہی حلال ہے۔
(خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱ / ۳۶۷)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثَلاثَةٌ لَهُمْ أجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، وَالعَبْدُ المَمْلُوكُ إِذَا أدَّى حَقَّ الله، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ فَأدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ)
(متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح الفصل الاول کتاب الایمان رقم 11)
تین آدمیوں کے لیے دوگنا اجر ہے۔ ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا اور ایسا غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق بھی۔ اور ایسا آدمی جس کے ماتحت باندی ہے اور اس سے جماع کرتا ہے، اسے ادب سکھاتا ہے تو اس کے ادب کو اچھا بناتا ہے اور اسے تعلیم سکھاتا ہے تو اس کی تعلیم کو اچھا کرتا ہے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی کر لیتا ہے، اس کے لیے دوگنا اجر ہے۔
ان کے علاوہفتہ کثیرآیات قرآنیہ واحادیث نبویہ ومتعددآثارو روایات سے ثابت وواضح ہے کہ اپنی باندی سے بغیرنکاح کے جماع کرناجاٸزودرست ہے۔
________(❤️)_________
ثَلاثَةٌ لَهُمْ أجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، وَالعَبْدُ المَمْلُوكُ إِذَا أدَّى حَقَّ الله، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ فَأدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ)
(متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح الفصل الاول کتاب الایمان رقم 11)
تین آدمیوں کے لیے دوگنا اجر ہے۔ ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا اور ایسا غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق بھی۔ اور ایسا آدمی جس کے ماتحت باندی ہے اور اس سے جماع کرتا ہے، اسے ادب سکھاتا ہے تو اس کے ادب کو اچھا بناتا ہے اور اسے تعلیم سکھاتا ہے تو اس کی تعلیم کو اچھا کرتا ہے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس کے ساتھ شادی کر لیتا ہے، اس کے لیے دوگنا اجر ہے۔
ان کے علاوہفتہ کثیرآیات قرآنیہ واحادیث نبویہ ومتعددآثارو روایات سے ثابت وواضح ہے کہ اپنی باندی سے بغیرنکاح کے جماع کرناجاٸزودرست ہے۔
________(❤️)_________
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
________(❤️)_________
کتبہ:-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدام حسین قادری
کتبہ:-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدام حسین قادری
امجدی رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 6/صفرالمظفر 1445ھ مطابق 24/اگست 23 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔
مورخہ 6/صفرالمظفر 1445ھ مطابق 24/اگست 23 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔