(سوال نمبر 2007)
خواتین کو والدین کی قبر پر جانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
ایک خاتون اپنے والدین کی قبر پر جا کر قبر کی صفائی اور فاتحہ خوانی کر سکتی ہے؟ جبکہ اس خاتون کا کوئی بیٹا بھی نہیں جو قبر کی صفائی وغیرہ کر سکے؟
شرعی راہنمائی فرما دیں جزاک اللہ خیرا
سائلہ:- مریم شہر لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل بعونه
خواتین اپنے والدین کی قبر پر جا سکتی ہیں قبر کی صفائی اور فاتحہ پڑھ سکتی ہے پر ہمیشہ نہ جائیں کبھی کبھی جایا کریں جانے کی عادت نہ بنائیں گھر سے فاتحہ خوانی کریں واضح رہے کہ شرعی حدود و قیود لازم ہے یعنی خواتین والدین کی قبر پر جا سکتی ہیں پر شرعی حدود میں رہ کر کہ باحجاب ہوں ایصال ثواب فاتحہ پڑھنا مقصود ہو اور ساتھ ہی تذکرہ موت اور درس عبرت بھی یاد رہے اگر غیر شرعی امور دخل گیری یا قبرستان دور یا خواتین کے نکلنے سے فتنہ و فساد کا خدشہ پو پھر جانا جائز نہیں ہے
مصنف جنتی زیور رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی عورتیں ماں باپ کی قبروں کی زیارت کے لئے بھی جایا کریں ۔ان کے مزاروں پر فاتحہ پڑھیں ۔ سلام کریں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں اس سے ماں باپ کی اَرواح کو خوشی ہوگی اور فاتحہ کا ثواب فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کریں گے اور ماں باپ خوش ہو کر اپنے بیٹے بیٹیوں کو دعائیں دیں گے۔ (جنتی زیور ص۹۴)
کما فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري
(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210)
واضح رہے کہ شارع علیہ السلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی زیارت قبور کی اجازت عنایت فرمائی۔ آج بھی کوئی عورت یا مرد دورِ جاہلیت کی طرح قبروں پر جا کر غیر شرعی حرکات کرے تو اس کے لئے ممانعت ہے، ورنہ اجازت ہے۔ آقائے کریم کا فرمان ہے۔
نهيتکم عن زيارت القبور فزوروها.
(مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب استيذان النبی صلی الله عليه وآله وسلم ربه قبر امه، 2 : 672، الرقم: 977)
میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعن زوارات کے القبور قبروں کی کثرت سے زیارت کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ وزارات مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ قبروں پر جانے والیوں پر ۔جس طرح نماز، روزہ، اور باقی عبادات میں مبالغہ آمیزی جائز نہیں، زیارت قبور میں بھی حد اعتدال کاحکم ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
خواتین کو والدین کی قبر پر جانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
ایک خاتون اپنے والدین کی قبر پر جا کر قبر کی صفائی اور فاتحہ خوانی کر سکتی ہے؟ جبکہ اس خاتون کا کوئی بیٹا بھی نہیں جو قبر کی صفائی وغیرہ کر سکے؟
شرعی راہنمائی فرما دیں جزاک اللہ خیرا
سائلہ:- مریم شہر لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل بعونه
خواتین اپنے والدین کی قبر پر جا سکتی ہیں قبر کی صفائی اور فاتحہ پڑھ سکتی ہے پر ہمیشہ نہ جائیں کبھی کبھی جایا کریں جانے کی عادت نہ بنائیں گھر سے فاتحہ خوانی کریں واضح رہے کہ شرعی حدود و قیود لازم ہے یعنی خواتین والدین کی قبر پر جا سکتی ہیں پر شرعی حدود میں رہ کر کہ باحجاب ہوں ایصال ثواب فاتحہ پڑھنا مقصود ہو اور ساتھ ہی تذکرہ موت اور درس عبرت بھی یاد رہے اگر غیر شرعی امور دخل گیری یا قبرستان دور یا خواتین کے نکلنے سے فتنہ و فساد کا خدشہ پو پھر جانا جائز نہیں ہے
مصنف جنتی زیور رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی عورتیں ماں باپ کی قبروں کی زیارت کے لئے بھی جایا کریں ۔ان کے مزاروں پر فاتحہ پڑھیں ۔ سلام کریں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں اس سے ماں باپ کی اَرواح کو خوشی ہوگی اور فاتحہ کا ثواب فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کریں گے اور ماں باپ خوش ہو کر اپنے بیٹے بیٹیوں کو دعائیں دیں گے۔ (جنتی زیور ص۹۴)
کما فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري
(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210)
واضح رہے کہ شارع علیہ السلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی زیارت قبور کی اجازت عنایت فرمائی۔ آج بھی کوئی عورت یا مرد دورِ جاہلیت کی طرح قبروں پر جا کر غیر شرعی حرکات کرے تو اس کے لئے ممانعت ہے، ورنہ اجازت ہے۔ آقائے کریم کا فرمان ہے۔
نهيتکم عن زيارت القبور فزوروها.
(مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب استيذان النبی صلی الله عليه وآله وسلم ربه قبر امه، 2 : 672، الرقم: 977)
میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعن زوارات کے القبور قبروں کی کثرت سے زیارت کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ وزارات مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ قبروں پر جانے والیوں پر ۔جس طرح نماز، روزہ، اور باقی عبادات میں مبالغہ آمیزی جائز نہیں، زیارت قبور میں بھی حد اعتدال کاحکم ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
22/2/2022
22/2/2022