کیا السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ کے ساتھ "مغفرتہ" نہیں کہنا چاہئے؟
ا■■■■■■■■■
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ا■■■■■■■■■
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
زید نے کہا کہ السلام علیکم کے ساتھ "مغفرتہ" نہیں کہنا چاہئے ؟ اس تعلق سے فتاوی رضویہ میں عبارت ہو تو اس کا حوالہ و اسکان عنایت فرمائیں
سائل : -سید اعجاز رضوی قادری الہند
ا■■■■■■■■■
زید نے کہا کہ السلام علیکم کے ساتھ "مغفرتہ" نہیں کہنا چاہئے ؟ اس تعلق سے فتاوی رضویہ میں عبارت ہو تو اس کا حوالہ و اسکان عنایت فرمائیں
سائل : -سید اعجاز رضوی قادری الہند
ا■■■■■■■■■
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ا■■■■■■■■■
الجواب بعون الملک الوہاب:-
صورت مسؤلہ میں سلام کے لیے جو کلمات حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک بتائے گئے وہ یہ ہیں،، السلام علیکم،، اور یہی جامع کلمات ہیں
❇ متفرق حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا
"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، سلام کا بہتر جواب کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی آپ کو سلام کہے اسے یوں جواب دیں،، وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،،
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے متعلق روایت ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور سلام کہتے وقت اس نے برکاتہ کے بعد کچھ مزید الفاظ کا اضافہ کیا آپ نے فرمایا،، سلام برکاتہ پر،، ختم ہو جاتا ہے.
(موطا امام مالک باب العمل فی اسلام،)
اسی طرح عروہ بن زبیر سے مروی ہے. (شعب الایمان)بعض روایتوں میں اگرچہ مغفرتہ کا اضافہ بھی ہے جیسا کہ سنن ابو داؤد کتاب الاداب باب کیف السلام کی حدیث سے ثابت ہے، مگر بہتر یہی ہے کہ برکاتہ پر اضافہ نہ کیا جائے،،
{والافضل للمسلم ان یقول السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ والمجیب کذالک یرد ولاینبغی ان یزاد علی البرکات شئ وقال ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما لکل شئ منتھی ومنتھی السلام البرکات،،}
مسلم کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہے اور مجیب ایسے ہی جواب دے اور مناسب نہیں ہے کہ برکاتہ پر کچھ زیادہ کرے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ ہر چیز کی انتہا ہے اور سلام کی انتہا برکاتہ ہے ایسا ہی محیط میں ہے.
(فتاوی ھندیہ الجزء الخامس الباب السابع فی السلام ص325)
لہذا زید کاقول زیادہ اصح ہے۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
ا■■■■■■■■■
🖊از قلم:-مفتی محمد شہروز عالم قادری
دار العلوم قادریہ حبیبہ، فیل خانہ، ہوڑہ، بنگال
ا■■■■■■■■■
الجواب بعون الملک الوہاب:-
صورت مسؤلہ میں سلام کے لیے جو کلمات حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک بتائے گئے وہ یہ ہیں،، السلام علیکم،، اور یہی جامع کلمات ہیں
❇ متفرق حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا
"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، سلام کا بہتر جواب کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی آپ کو سلام کہے اسے یوں جواب دیں،، وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،،
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے متعلق روایت ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور سلام کہتے وقت اس نے برکاتہ کے بعد کچھ مزید الفاظ کا اضافہ کیا آپ نے فرمایا،، سلام برکاتہ پر،، ختم ہو جاتا ہے.
(موطا امام مالک باب العمل فی اسلام،)
اسی طرح عروہ بن زبیر سے مروی ہے. (شعب الایمان)بعض روایتوں میں اگرچہ مغفرتہ کا اضافہ بھی ہے جیسا کہ سنن ابو داؤد کتاب الاداب باب کیف السلام کی حدیث سے ثابت ہے، مگر بہتر یہی ہے کہ برکاتہ پر اضافہ نہ کیا جائے،،
{والافضل للمسلم ان یقول السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ والمجیب کذالک یرد ولاینبغی ان یزاد علی البرکات شئ وقال ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما لکل شئ منتھی ومنتھی السلام البرکات،،}
مسلم کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہے اور مجیب ایسے ہی جواب دے اور مناسب نہیں ہے کہ برکاتہ پر کچھ زیادہ کرے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ ہر چیز کی انتہا ہے اور سلام کی انتہا برکاتہ ہے ایسا ہی محیط میں ہے.
(فتاوی ھندیہ الجزء الخامس الباب السابع فی السلام ص325)
لہذا زید کاقول زیادہ اصح ہے۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
ا■■■■■■■■■
🖊از قلم:-مفتی محمد شہروز عالم قادری
دار العلوم قادریہ حبیبہ، فیل خانہ، ہوڑہ، بنگال