Type Here to Get Search Results !

عورت نماز تراویح اور صلوۃ التسبیح کی جماعت کروا سکتی ہے؟

 (سوال نمبر 2151)
عورت نماز تراویح اور صلوۃ التسبیح کی جماعت کروا سکتی ہے؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ 
عورت نماز تراویح اور صلوۃ التسبیح کی جماعت کروا سکتی ہے؟شرعی رہنماٸی فرما دیجٸے 
جزاک اللہ خیرا 
سائل:نور شہر فیصل آباد لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
عورتوں کی جماعت اور ان کی امامت مکروہ تحریمی ہے چاہے وہ فرض نماز ہو یا غیر فرض، مسجد میں ہو یا گھر میں.
١/ اعلاءالسنن میں ہے
عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنه أنه قال: لا تؤم المرأة.
(إعلاء السنن ۴؍۲۲۷ دار الکتب العلمیة بیروت)
٢/ الفتاوی الھندیۃ میں ہے
ویکرہ امامۃ المرءۃ للنساء فی الصلوت کلھا من الفرائض والنوافل.
(ج اول،، ص ۵۸)
٣/ فتاوی شامی میں ہے
ویکره تحریماً جماعة النساء ولو في التراویح. فإن فعلن تقف الإمام وسطهن فلو قدمت أثمت”.(ج ٢ /٣٠٥)
٤/ تبیین الحقائق میں ہے
کرہ جماعۃ النساء وحدھن لقولہ علیہ السلام صلاۃ المرءۃ فی بیتھاافضل من صلاتھا فی حجرتھا وصلاتھا فی مخدعھا افضل من
 صلاتھا فی بیتھا 
(ج اول،ص۸۴۳)
ہاں اگر گھر میں امامت کرنے والا مرد ہو اور شریک جماعت عورتوں میں کوئی مرد بھی ہو یا امام کی بیوی یا اس کے محارم میں سے کوئی ہو تو اس طرح عورتیں بھی شریکِ جماعت ہوسکتی ہیں، لیکن عورتوں کوجماعت کے لیے باہر جانا جائز نہیں ہے۔ 
٥/ در مختار میں ہے
وَيُكْرَهُ حُضُورُهُنَّ الْجَمَاعَةَ) وَلَوْ لِجُمُعَةٍ وَعِيدٍ وَوَعْظٍ (مُطْلَقًا) وَلَوْ عَجُوزًا لَيْلًا (عَلَى الْمَذْهَبِ) الْمُفْتَى بِهِ لِفَسَادِ الزَّمَانِ، وَاسْتَثْنَى الْكَمَالُ بَحْثًا الْعَجَائِزَ وَالْمُتَفَانِيَةَ (كَمَا تُكْرَهُ إمَامَةُ الرَّجُلِ لَهُنَّ فِي بَيْتٍ لَيْسَ مَعَهُنَّ رَجُلٌ غَيْرُهُ وَلَا مَحْرَمٌ مِنْهُ) كَأُخْتِهِ (أَوْ زَوْجَتِهِ أَوْ أَمَتِهِ، أَمَّا إذَا كَانَ مَعَهُنَّ وَاحِدٌ مِمَّنْ ذُكِرَ أَوْ أَمَّهُنَّ فِي الْمَسْجِدِ لَا يُكْرَهُ بَحْرٌ۔
(در مختار، کتاب الصلاة، باب الامامة)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
جس گھر میں عورتیں ہی عورتیں ہوں ، اس میں مرد کو ان کی اِمامت ناجائز ہے، ہاں اگر ان عورتوں میں اس کی نسبی محارم ہوں یا 
بی بی یا وہاں کوئی مرد بھی ہو، تو ناجائز نہیں۔
(بہار شریعت ح٣ص۵٨٨)
واضح رہے کہ امامت دراصل مرد کے لیے ہے۔ لیکن اگر نماز میں صرف عورتیں ہی ہوں تو اس صورت میں عورت ان کی امامت کرواسکتی ہے، تاہم عورتوں کا مردوں کے علاوہ الگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض فقہا مکروہ کے قائل ہیں۔ صاحبِ ہدایہ نے لکھا ہے
ویکره للنساء أن یصلین وحدھن الجماعۃ … 
فإن فعلن قامت الإمامۃ وسطھن.
( الھدایۃ، 1: 56)
اکیلی عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی امام صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔‘
احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اور دیگر صحابیات نماز میں امامت کراتی تھیں۔ امام حاکم نے المستدرک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے
انها کانت تؤذن وتقیم وتؤم النساء، فتقوم وسطھن.
(حاکم، المستدرک، 1: 320، رقم: 731)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اذان دیتی تھیں، نماز کے لئے اقامت کہتی تھیں اور صف کے درمیان میں کھڑی ہوکر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔‘
اس روایت کی رُو سے ثابت ہے کہ دینی تربیت اور عبادت الہٰی میں رغبت اور شوق پیدا کرنے کے لئے اپنے فیملی میں جب کہ صرف خواتین ہی ہوں اور آواز غیر محرم تک نہ پہنچتی ہو اور خواتین کے جامعہ میں اگر عورتیں جمع ہوکر باجماعت نماز ادا کریں تو اجازت ہونی چاہئے ۔
 چونکہ مذکورہ صورت میں کوئی فتنہ و خطرہ نہی 
 اس صورت میں امامت کرانے والی خاتون صف کے درمیان میں کھڑی ہوں گی۔ 
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
اگر عورت عورتوں کی اِمامت کرے، تو امام آگے نہ ہو بلکہ بیچ میں کھڑی ہو اور آگے ہوگی جب بھی نماز فاسد نہ ہوگی۔
(بہار ح ٣ ص ٥٧٣ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و 
3/4/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area