(سوال نمبر 4145)
اناج خرید کر بعد میں مہنگا کرکے بیچنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ اس وقت کا دکان ریٹ دکاندار ادھار پر زیادہ لیتے ہیںاصل ریٹ 12000 ہے ایک بوری کا تو نومبر کے ماھ تک کوئی دکاندار 500 اوپر لیتا ہے تو کوئی 1000 تو کوئی 2000 تو کوئی 4000 تک اوپر لیتا ہے
تو اس میں کونسا ریٹ سود کے زمرے میں آتا ہے
آیا سود اس کو کہا جا سکتا ہے بھی یا نہیں یا یہ ریٹ ظلم کے زمرے میں آتا ہے
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں
سائل:- عبدالحمید قاسمی شکارپور سندھ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت سود اور ظلم نہیں ہے وہ بزنس مین ہے منافع کے لئے ایسا کر سکتے ہیں
البتہ زر اندوزی جائز نہیں ہے کہ بہت اناج خرید کر جمع کرے کہ عوام الناس اس سے پریشان ہوجائے
یاد رہے کہ شریعت نے نفع کی مقدار مقرر کیئے بغیر تجارت کو حلال فرمایا اور مقدارِ نفع کو عاقدین (بائع و مشتری) کی مرضی پر چھوڑا لہذا مالک اپنی چیز بغیر دھوکہ فراڈ کے جتنے کیچاہے بیچے خریدار چاہے تو اتنے کی لے لے یا چھوڑ دے.
قرآن میں ہے
اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ
اللہ نے خرید و فروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا.
(القرآن ،البقرۃ ، آیت نمبر 275)
ایک اور مقام پر ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو.
صراط الجنان میں ہے
باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو وہ تمہارے لئے حلال ہے۔ باہمی رضامندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی رضامندی نہ ہو درست نہیں جیسے اکثرضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدنا کہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا یونہی کسی کی دکان مکان زمین یا جائیداد پر جبری قبضہ کر لینا حرام ہے۔
(القرآن، النساء، آیت نمبر 29)
مصنف ابن أبي شيبة، میں ہے
عن أبي قلابة، قال
إذا اختلف النوعان، فبع كيف شئت» حضرت ابو قلابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں
جب دو چیزوں کی نوع مختلف ہو تو جیسے چاہے بیچ.
(مصنف ابن أبي شيبة، کتاب البیوع والأقضیہ، باب فی الحنطۃ بالشعیر ، حدیث نمبر 20599، 320/4)
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے
وإذا اختلف النوعان فبيعوا كيف شئتم جب دو مختلف نوعیں ہوں تو جیسے چاہو بیچو.
(نصب الرایۃ للأحاديث الہدایۃ ،ج 4 ص 04 ،مطبوعہ المکتبۃ المکیۃ)
(عبد الحق الدِّهْلوي، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، کتاب البیوع ،باب الربا ، الفصل الثانی، ٥٣٤/٥)
فتح القدير اور فتاوی شامی میں ہے
لو باع كاغدة بألف يجوز ولا يكره.
اگر کسی نے کاغذ کا ٹکڑا ہزار روپے کے بدلے میں بیچا تو جائز ہے۔
اناج خرید کر بعد میں مہنگا کرکے بیچنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ اس وقت کا دکان ریٹ دکاندار ادھار پر زیادہ لیتے ہیںاصل ریٹ 12000 ہے ایک بوری کا تو نومبر کے ماھ تک کوئی دکاندار 500 اوپر لیتا ہے تو کوئی 1000 تو کوئی 2000 تو کوئی 4000 تک اوپر لیتا ہے
تو اس میں کونسا ریٹ سود کے زمرے میں آتا ہے
آیا سود اس کو کہا جا سکتا ہے بھی یا نہیں یا یہ ریٹ ظلم کے زمرے میں آتا ہے
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں
سائل:- عبدالحمید قاسمی شکارپور سندھ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت سود اور ظلم نہیں ہے وہ بزنس مین ہے منافع کے لئے ایسا کر سکتے ہیں
البتہ زر اندوزی جائز نہیں ہے کہ بہت اناج خرید کر جمع کرے کہ عوام الناس اس سے پریشان ہوجائے
یاد رہے کہ شریعت نے نفع کی مقدار مقرر کیئے بغیر تجارت کو حلال فرمایا اور مقدارِ نفع کو عاقدین (بائع و مشتری) کی مرضی پر چھوڑا لہذا مالک اپنی چیز بغیر دھوکہ فراڈ کے جتنے کیچاہے بیچے خریدار چاہے تو اتنے کی لے لے یا چھوڑ دے.
قرآن میں ہے
اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ
اللہ نے خرید و فروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا.
(القرآن ،البقرۃ ، آیت نمبر 275)
ایک اور مقام پر ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو.
صراط الجنان میں ہے
باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو وہ تمہارے لئے حلال ہے۔ باہمی رضامندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی رضامندی نہ ہو درست نہیں جیسے اکثرضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدنا کہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا یونہی کسی کی دکان مکان زمین یا جائیداد پر جبری قبضہ کر لینا حرام ہے۔
(القرآن، النساء، آیت نمبر 29)
مصنف ابن أبي شيبة، میں ہے
عن أبي قلابة، قال
إذا اختلف النوعان، فبع كيف شئت» حضرت ابو قلابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں
جب دو چیزوں کی نوع مختلف ہو تو جیسے چاہے بیچ.
(مصنف ابن أبي شيبة، کتاب البیوع والأقضیہ، باب فی الحنطۃ بالشعیر ، حدیث نمبر 20599، 320/4)
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے
وإذا اختلف النوعان فبيعوا كيف شئتم جب دو مختلف نوعیں ہوں تو جیسے چاہو بیچو.
(نصب الرایۃ للأحاديث الہدایۃ ،ج 4 ص 04 ،مطبوعہ المکتبۃ المکیۃ)
(عبد الحق الدِّهْلوي، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، کتاب البیوع ،باب الربا ، الفصل الثانی، ٥٣٤/٥)
فتح القدير اور فتاوی شامی میں ہے
لو باع كاغدة بألف يجوز ولا يكره.
اگر کسی نے کاغذ کا ٹکڑا ہزار روپے کے بدلے میں بیچا تو جائز ہے۔
(الكمال بن الهمام، فتح القدير للكمال ابن الهمام،کتاب الکفالۃ ، 212/7)
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،کتاب الکفالۃ ، مطلب بیع العینۃ، ٣٢٦/٥)
فتاوی رضویہ میں ہے اپنے مال کا ہر شخص کو اختیار ہے چا ہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کودے، مشتری کو غرض ہولے نہ ہونہ لے۔
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،کتاب الکفالۃ ، مطلب بیع العینۃ، ٣٢٦/٥)
فتاوی رضویہ میں ہے اپنے مال کا ہر شخص کو اختیار ہے چا ہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کودے، مشتری کو غرض ہولے نہ ہونہ لے۔
(فتاویٰ رضویہ ،ج 17، ص97 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
فتاوی امجدیہ میں ہے
ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو کم یا زیادہ جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے، تھوڑا نفع لے یا زیادہ ، شرع سے اس کی ممانعت نہیں
فتاوی امجدیہ میں ہے
ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو کم یا زیادہ جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے، تھوڑا نفع لے یا زیادہ ، شرع سے اس کی ممانعت نہیں
(فتاویٰ امجدیہ ،ج 3 ص 181 مکتبہ رضویہ ،کراچی)
البتہ تاجروں کو چاہیے کہ اخلاقی طور پر چیزوں کا ریٹ زیادہ نہ کریں عوام کی خیر خواہی کریں۔ اگر تاجر بہت زیادہ نفع مقرر کریں جس سے عوام مشقت میں پڑ جائے تو حکومت کو اختیار ہے کہ ایک مناسب نفع مقرر کر کہ عوام کو مشقت سے بچائیں، اور اس صورت میں تاجروں کا حکومت کی طرف سے مقررہ نفع سے زیادہ میں چیز بیچنا درست نہیں.
عوام سے مشقت دور کرنے کیلئے قیمت مقرر کرنا درست ہے چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے
فلا ينبغي للإمام أن يتعرض لحقه إلا إذا تعلق به دفع ضرر العامة
حاکم کے لئے (چیزوں کی قیمت مقرر کر کے) لوگوں کے حق کے پیچھے پڑنا مناسب نہیں، مگر یہ کہ لوگوں سے ضرر دور کرنا مقصود ہو (یعنی پھر حاکم کا چیزوں کی قیمت مقرر کرنا درست ہے)
(الهداية في شرح بداية المبتدي،کتاب الکراہیۃ ، فصل فی البیع ،378/4)
بہارشریعت میں ہے تاجروں نے اگر چیزوں کا نرخ بہت زیادہ کردیا ہے اور بغیر نرخ مقرر کیے کام چلتا نظر نہ آتا ہو تو اہل الرائے سے مشورہ لے کر قاضی نرخ مقرر کرسکتا ہے اور مقرر شدہ نرخ کے موافق جو بیع ہوئی یہ بیع جائز ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بیع مُکرَہ ہے کیونکہ یہاں بیع پرا کراہ نہیں ، قاضی نے اسے بیچنے پر مجبور نہیں کیا۔ اسے اختیار ہے کہ اپنی چیز بیچے یا نہ بیچے، صرف یہ کیا ہے کہ اگر بیچے تو جو نرخ مقرر ہوا ہے، اس سے گراں نہ بیچے
البتہ تاجروں کو چاہیے کہ اخلاقی طور پر چیزوں کا ریٹ زیادہ نہ کریں عوام کی خیر خواہی کریں۔ اگر تاجر بہت زیادہ نفع مقرر کریں جس سے عوام مشقت میں پڑ جائے تو حکومت کو اختیار ہے کہ ایک مناسب نفع مقرر کر کہ عوام کو مشقت سے بچائیں، اور اس صورت میں تاجروں کا حکومت کی طرف سے مقررہ نفع سے زیادہ میں چیز بیچنا درست نہیں.
عوام سے مشقت دور کرنے کیلئے قیمت مقرر کرنا درست ہے چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے
فلا ينبغي للإمام أن يتعرض لحقه إلا إذا تعلق به دفع ضرر العامة
حاکم کے لئے (چیزوں کی قیمت مقرر کر کے) لوگوں کے حق کے پیچھے پڑنا مناسب نہیں، مگر یہ کہ لوگوں سے ضرر دور کرنا مقصود ہو (یعنی پھر حاکم کا چیزوں کی قیمت مقرر کرنا درست ہے)
(الهداية في شرح بداية المبتدي،کتاب الکراہیۃ ، فصل فی البیع ،378/4)
بہارشریعت میں ہے تاجروں نے اگر چیزوں کا نرخ بہت زیادہ کردیا ہے اور بغیر نرخ مقرر کیے کام چلتا نظر نہ آتا ہو تو اہل الرائے سے مشورہ لے کر قاضی نرخ مقرر کرسکتا ہے اور مقرر شدہ نرخ کے موافق جو بیع ہوئی یہ بیع جائز ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بیع مُکرَہ ہے کیونکہ یہاں بیع پرا کراہ نہیں ، قاضی نے اسے بیچنے پر مجبور نہیں کیا۔ اسے اختیار ہے کہ اپنی چیز بیچے یا نہ بیچے، صرف یہ کیا ہے کہ اگر بیچے تو جو نرخ مقرر ہوا ہے، اس سے گراں نہ بیچے
(بہار شریعت جلد 3 ، ح 16 ، ص 483 ، مکتبۃالمدینہ کراچی )
ایسا ہی فتاوی اہلسنت میں ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
22/08/2023
22/08/2023