Type Here to Get Search Results !

اللہ سبحانہ و تعالی کو حاضر و ناظر کہنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 2044)
اللہ سبحانہ و تعالی کو حاضر و ناظر کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
علمائے کرام کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے کے اللہ پاک کو حاضر وناظر کہنا کیسا ہے کہ اللہ پاک ہر جگہ موجود ہیں کیا اس طرح کہنا درست ہے کچھ کہتے ہیں اس طرح کہنا کفر ہے 
سائل:- محمد اجمل چشتی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
١/ فقط یہ کہنا کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے درست نہیں ہے بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے 
اللہ تعالیٰ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے، لیکن اس کی ذات کو کسی ایک مقام کے ساتھ خاص نہ کیا جائے ذاتِ باری تعالیٰ زمان و مکاں سے پاک ہے۔ ہماری عقلیں اْس کا ارداک نہیں کر سکتیں۔ﷲ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ذاتاً ہر جگہ موجود ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے، البتہ اْس کا علمِ اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے ۔ اْس کی معیت ہر کسی کو حا صل ہے۔
٢/ اللہ تعالی کو حاضر و ناظر کہنے میں علماء فقہ کے نزدیک اختلاف ہے بعض جائز کہتے ہیں اور بعض کہنے سے منع کرتے ہیں ۔
اللہ ہر جگہ موجود ہے کہنا درست تو نہیں پر قائل خارج از اسلام بھی نہیں ۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں ہرجگہ میں حاضر و ناظر ہونا خدا کی صفت ہر گز نہیں خدائے
 تَعَالٰی جگہ اور مکان سے پاک ہے۔(جاء الحق ص ١٤٣)
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے 
١/ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ
اور ﷲ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ (آل عِمْرَان، 3: 20)
٢/ سورہ بنی اسرائیل، سورہ فرقان، سورہ فاطر اور سورہ فتح میں فرمایا:
إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا.
بیشک وہ اپنے بندوں (کے اعمال و احوال) کی خوب خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
(بَنِيْ إِسْرَآءِيْل، 17: 30)
٣/ سورہ النساء میں فرمایا
 إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرمانے والا ہے۔ (النساء، 4: 33)
٤/ سورہ حدید میں فرمایا
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ.
وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو، اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو (اسے) خوب دیکھنے والا ہے۔(الْحَدِيْد، 57: 4) 
١/ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، لوگ زور کی آواز سے تکبیر کہنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انکم تدعون سمیعا بصیرا وهو معکم والذی تدعونه اقرب الی احدکم من عنق راحلته. متفق علیه
تم تو اس خدا کو پکارتے ہو جو سننے والا دیکھنے والا ہے اور جو تمہارے ساتھ ہے اورتم سے تمہارے اونٹ کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔
٢/ حضرت عبد اللہ بن معاویہ عامری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ  یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کسی شخص کا اپنے نفس کو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ تو رسول اللہ نے فرمایا:
ان یعلم ان الله معه حیثما
اس بات کا یقین ہو کہ انسان جس جگہ بھی ہو اللہ اسکے ساتھ ہے۔
(البزاز، المسند، حدیث: 507)
درج بالا آیات و روایات سے واضح ہوا کہ حاضر و ناظر ہونا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، وہ ہر جگہ اپنے شان کے مطابق حاضر و ناظر ہے۔ ایسا کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یاد رہے کہ بعض علماء فقہ کے نزدیک اللہ سبحانہ و تعالی کو حاضر و ناظر کہنا سہی نہیں ہے وہ فرماتے ہیں یہ صفت آقا علیہ السلام کے لئے ہے ۔ 
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
ﷲ تعالیٰ جہت و مکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔(بہار شريعت ح ١ص ٢١المكتبة المدينة) 
 في شعب الإیمان باب في الإیمان باللّٰہ عزوجل، فصل في معرفۃ أسماء اللّٰہ وصفاتہ ج۱، ص۱۱۳( وہو المتعالي عن الحدود والجہات، والأقطار، والغایات، المستغني عن الأماکن والأزمان، لا تنالہ الحاجات، ولا تمسّہ المنافع والمضرّات، ولا تلحقہ اللّذّات، ولا الدّواعي، ولا الشہوات، ولا یجوز علیہ شيء ممّا جاز علی المحدثات فدلّ علی حدوثہا، ومعناہ أنّہ لایجوز علیہ الحرکۃ ولا السکون، والاجتماع، والافتراق، والمحاذاۃ، والمقابلۃ، والمماسۃ، والمجاوزۃ، ولا قیام شيء حادث بہ ولا بطلان صفۃ أزلیۃ عنہ، ولا یصح علیہ العدم )۔
وفي شرح المواقف  المقصد الأول،ج۸، ص۲۲(أنّہ تعالی لیس في جہۃ ) من الجہات
( ولا في مکان ) من الأمکنۃ )۔وص  ۳۱: (( أنّہ تعالی لیس في زمان )  أي :  لیس وجودہ وجوداً زمانیاً )
صاحب تفسیر تبیان القران رحمة الله عليه فرماتے ہیں 
 انبیاء علہیم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور ایک وقت میں کئی جگہ بھی ہوتے ہیں اسی مفہوم کو بعض علماء حاضر و ناظر سے بھی تعبیر کرتے ہیں لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) ہر وقت ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، ہر وقت ہر جگہ موجود ہونا اور ہر وقت ہر چیز کا علم ہونا یہ صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔
(تفسیر تبیان القران تحت آیت الاسری آیت ١ پ ١٥)
2/ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں  
حاضر و ناظر خدائے تعالی کے اسمائے توقیفیہ میں سے نہیں ہیں اور ان الفاظ کے بعض معانی شان الوہیت کے خلاف ہیں اس لئے اللہ تعالی کو حاضر و ناظر نہیں کہنا چاہئے لیکن اگر کسی نے کہا تو کفر نہیں جیسا کہ در مختار مع رد المحتار میں ہے کہ يا حاضر يا ناظر ليس بكفر اھ اس عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے کہ
فان الحضور بمعنى العلم شائع ( كما قال الله تعالى ) مَا یَکُوۡنُ مِنۡ نَّجۡوٰی ثَلٰثَة اِلَّا هوَ رَابِعُهمۡ و النظر بمعنى الروية ( كما قال الله تعالى ) ألم يعلم بان الله يرى . فالمعنى يا عالم يا من يرى بزازية " اھ
(در مختار مع رد المحتار ج 3 ص 317 بحوالہ فتاوی فیض الرسول ج 1 ص 4 )
اور حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ فرماتےہیں کہ
بلاشبہ حضورﷺ حاضر و ناظر ہیں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ "سلوک اقرب السبل " میں فرماتےہیں, باچندیں اختلافاف و کثرت مذاہب کہ درمیان علمائے امت ست یک کس رادریں مسئلہ خلافے نیست کہ آنحضرت صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہ حقیقت حیات بلا شائبہ مجازد تو ہم تاویل دائم وباقی اندوبراحوال امت حاضر وناظر اند '' اور یہ مضمون خود حدیث سے مستخرج ہے ، حضورﷺ نےارشاد فرمایا جب گھر میں اور گھر میں کوئی نہ ہو'' فقولو السلام علیک یا رسول ﷲ 
اور آگے فرماتےہیں کہ 
یقیناً حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حاضر وناظر ہر جگہ جلوہ فرما اور ہر چیز کے دیکھنے والے ہیں اور یہ بحمدہ تعالیٰ قرآن کریم سے ثابت ہے،.
 ارشاد باری ہے 
النبی اولی' بالمومینین من انفسھم 
 نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مومنین کی جانوں سے بھی زیادہ مومنین سے قریب ہیں.
(پارہ نمبر ۲۱, سورة الاحزاب آیت ۶)
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ (۴۵ )
 اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب (پارہ,۲۲,سورۃ الاحزاب,آیت نمبر,۴۵)
(فتاویٰ شارح بخاری ج اول ص ۳۰۴ / ۳۰۵, باب عقائدہ متعلقہ نبوت کا بیان)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
5/3/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area