(سوال نمبر 2125)
اہل تشیع کا ہدیہ اور نیاز لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
شیعہ مذہب کے لوگوں کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں... آیا انکے طرف سے آنے والی نیاز ، گفٹس وغیرہ قبول کر سکتے ہیں ؟ راہنمائی فرما دیں جزاک اللہ خیرا
سائل: مصباح طارق شہر فیصل آباد لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
اہل تشیع صحابۂ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی شان میں یہ فرقہ نہایت گستاخ ہے، یہاں تک کہ اُن پر سبّ و شتم ان کا عام شیوہ ہے بلکہ باستثنا ئے چند سب کو معاذ ﷲ کافر و منافق قرار دیتا ہے۔حضرات خلفائے ثلٰثہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی خلافتِ راشدہ‘کو خلافت ِغاصبہ کہتا ہے اور مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جو اُن حضرات کی خلافتیں تسلیم کیں اور اُن کے مَدائح و فضائل بیان کیے، اُس کو تقیّہ وبُزدلی پر محمول کرتا ہے،کیا معاذ ﷲ، منافقین و کافرین کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور عمر بھر اُن کی مدح و ستائش سے رطب اللسان رہنا شیرِ خدا کی شان ہو سکتی ہے۔؟
سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآنِ مجید اُن کو ایسے جلیل و مقدّس خطابات سے یاد فرماتا ہے، وہ تو وہ، اُن کے اتباع کرنے والوں کی نسبت فرماتا ہے: کہ ﷲ اُن سے راضی، وہ اﷲ سے راضی۔
کیا کافروں منافقوں کے لیے ﷲ عزوجل کے ایسے ارشادات ہوسکتے ہیں
پھر نہایت شرم کی بات ہے کہ مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالی وجہہ الکریم تو اپنی
صاحبزادی فاروقِ اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں دیں اور یہ فرقہ کہے: تقیۃً ایسا کیا۔ کیا جان بوجھ کر کوئی مسلمان اپنی بیٹی کافر کو دے سکتا ہے؟ نہ کہ وہ مقدس حضرات جنھوں نے اسلام کے لیے اپنی جانیں وقف کر دیں اور حق گوئی اور اتباع حق میں لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍ کے سچے مصداق تھے۔ پھر خود حضور سید المرسلین صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وعلیہم وسلم کی دو شاہزادیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمن ذی النورین
رضیﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور صدیق و فاروق رضیﷲ تعالیٰ عنہما کی صاحبزادیاں شرفِ زوجیت سے مشرف ہوئیں ۔کیا حضور صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایسے تعلقات جن سے ہوں اُن کی نسبت وہ ملعون الفاظ کوئی ادنیٰ عقل والا ایک لمحہ کے لئے جائز رکھ سکتا ہے۔؟ہرگز نہیں ہرگز نہیں ایک عقیدہ یہ ہے کہ ائمۂ اَطہار رضی ﷲ تعالیٰ عنہم، انبیا علیہم السلام سے افضل ہیں اور یہ بالاجماع کفر ہے، کہ غیرِ نبی کو نبی سے افضل کہنا ہے۔
ایک عقیدہ یہ ہے کہ ’قرآن مجید محفوظ نہیں بلکہ اُس میں سے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں یا الفاظ امیر المؤمنین عثمٰن غنی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یا دیگر صحابہ رضوانﷲ تعالیٰ علیہم نے نکال دیے۔ مگر تعجب ہے کہ مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ نے بھی اُسے ناقص ہی چھوڑا۔؟ اور یہ عقیدہ بھی بالاِجماع کفر ہے، کہ قرآن مجید کا اِنکار ہے۔
(ماخوذ از بہار شریعت ح ١ ص ٢١٤ المکتة المدینہ )
مذکورہ بالا توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر اہل تشیع میں سے کوئی مذکورہ تحریر کو باطلہ قرار دے اور مذکورہ باب میں اہل سنت و جماعت جیسا عقیدہ رکھے۔
١/ پھر ان کی نیاز کھا سکتے ہیں
٢/ ہدیہ لے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے
٣/ بیان کردہ مذکورہ اوصاف اگر اس میں نہیں ہے تو اہل سنت جیسا برتائو ان کے ساتھ کریں گے اور ان کے گھر بھی جا سکتے ہیں۔
اور ان کی دعوت بھی قبول کر سکتے ہیں ۔
٤/اور اگر تشیع مذکورہ اوصاف کے متحمل ہیں پھر ان کے ساتھ اہل سنت و جماعت کا سا برتاؤ جائز نہیں ہے۔۔البتہ ہدیہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ محرم میں ماتم کا نیاز اور ذبیحہ نہ ہو ۔
کما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)
ولو أهدى لمسلم ولم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لايكفر وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيًا للشبهة.
(مسائل شتى ، قبيل كتاب الفرائض، سعيد)
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المختار) (6/ 754)
اہل تشیع کا ہدیہ اور نیاز لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
شیعہ مذہب کے لوگوں کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں... آیا انکے طرف سے آنے والی نیاز ، گفٹس وغیرہ قبول کر سکتے ہیں ؟ راہنمائی فرما دیں جزاک اللہ خیرا
سائل: مصباح طارق شہر فیصل آباد لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
اہل تشیع صحابۂ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی شان میں یہ فرقہ نہایت گستاخ ہے، یہاں تک کہ اُن پر سبّ و شتم ان کا عام شیوہ ہے بلکہ باستثنا ئے چند سب کو معاذ ﷲ کافر و منافق قرار دیتا ہے۔حضرات خلفائے ثلٰثہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی خلافتِ راشدہ‘کو خلافت ِغاصبہ کہتا ہے اور مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے جو اُن حضرات کی خلافتیں تسلیم کیں اور اُن کے مَدائح و فضائل بیان کیے، اُس کو تقیّہ وبُزدلی پر محمول کرتا ہے،کیا معاذ ﷲ، منافقین و کافرین کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور عمر بھر اُن کی مدح و ستائش سے رطب اللسان رہنا شیرِ خدا کی شان ہو سکتی ہے۔؟
سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآنِ مجید اُن کو ایسے جلیل و مقدّس خطابات سے یاد فرماتا ہے، وہ تو وہ، اُن کے اتباع کرنے والوں کی نسبت فرماتا ہے: کہ ﷲ اُن سے راضی، وہ اﷲ سے راضی۔
کیا کافروں منافقوں کے لیے ﷲ عزوجل کے ایسے ارشادات ہوسکتے ہیں
پھر نہایت شرم کی بات ہے کہ مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالی وجہہ الکریم تو اپنی
صاحبزادی فاروقِ اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں دیں اور یہ فرقہ کہے: تقیۃً ایسا کیا۔ کیا جان بوجھ کر کوئی مسلمان اپنی بیٹی کافر کو دے سکتا ہے؟ نہ کہ وہ مقدس حضرات جنھوں نے اسلام کے لیے اپنی جانیں وقف کر دیں اور حق گوئی اور اتباع حق میں لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍ کے سچے مصداق تھے۔ پھر خود حضور سید المرسلین صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وعلیہم وسلم کی دو شاہزادیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمن ذی النورین
رضیﷲ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور صدیق و فاروق رضیﷲ تعالیٰ عنہما کی صاحبزادیاں شرفِ زوجیت سے مشرف ہوئیں ۔کیا حضور صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایسے تعلقات جن سے ہوں اُن کی نسبت وہ ملعون الفاظ کوئی ادنیٰ عقل والا ایک لمحہ کے لئے جائز رکھ سکتا ہے۔؟ہرگز نہیں ہرگز نہیں ایک عقیدہ یہ ہے کہ ائمۂ اَطہار رضی ﷲ تعالیٰ عنہم، انبیا علیہم السلام سے افضل ہیں اور یہ بالاجماع کفر ہے، کہ غیرِ نبی کو نبی سے افضل کہنا ہے۔
ایک عقیدہ یہ ہے کہ ’قرآن مجید محفوظ نہیں بلکہ اُس میں سے کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں یا الفاظ امیر المؤمنین عثمٰن غنی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یا دیگر صحابہ رضوانﷲ تعالیٰ علیہم نے نکال دیے۔ مگر تعجب ہے کہ مولیٰ علی کرّم ﷲ تعالیٰ وجہہ نے بھی اُسے ناقص ہی چھوڑا۔؟ اور یہ عقیدہ بھی بالاِجماع کفر ہے، کہ قرآن مجید کا اِنکار ہے۔
(ماخوذ از بہار شریعت ح ١ ص ٢١٤ المکتة المدینہ )
مذکورہ بالا توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر اہل تشیع میں سے کوئی مذکورہ تحریر کو باطلہ قرار دے اور مذکورہ باب میں اہل سنت و جماعت جیسا عقیدہ رکھے۔
١/ پھر ان کی نیاز کھا سکتے ہیں
٢/ ہدیہ لے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے
٣/ بیان کردہ مذکورہ اوصاف اگر اس میں نہیں ہے تو اہل سنت جیسا برتائو ان کے ساتھ کریں گے اور ان کے گھر بھی جا سکتے ہیں۔
اور ان کی دعوت بھی قبول کر سکتے ہیں ۔
٤/اور اگر تشیع مذکورہ اوصاف کے متحمل ہیں پھر ان کے ساتھ اہل سنت و جماعت کا سا برتاؤ جائز نہیں ہے۔۔البتہ ہدیہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ محرم میں ماتم کا نیاز اور ذبیحہ نہ ہو ۔
کما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)
ولو أهدى لمسلم ولم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لايكفر وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيًا للشبهة.
(مسائل شتى ، قبيل كتاب الفرائض، سعيد)
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المختار) (6/ 754)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و
25/3/2022
25/3/2022