Type Here to Get Search Results !

اگر مجھے بیٹا ہوا تو اس کا نام محمد رکھیں گے اب بیٹا ہوا کیا محمد نام رکھنا شرعا واجب ہے؟

 (سوال نمبر 2046)
اگر مجھے بیٹا ہوا تو اس کا نام محمد رکھیں گے اب بیٹا ہوا کیا محمد نام رکھنا شرعا واجب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ 
اگر کسی نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عطا کرے گا تو میں اسکا نام محمد رکھوں گا اب اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا ہے تو اسکا نام محمد اور پکارنے کے لیے نعمان رکھا ہے اب یونین کونسل میں بیٹے کا نام محمد لکھوائے یا محمد نعمان ؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا 
سائلہ:- مقدس عطاریہ شہر نارووال پاکستان 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل
 
آپ نے جو نذر مانی وہ نذر شرعی نہیں ہے بلکہ نذر عرفی ہے اور نذر عرفی کا پورا کرنا مباح ہے ۔
آپ اپنے بیٹے کا نام محمد نعمان رکھ سکتے ہیں 
یونین کونسل سرکاری ادارے وغیرہ میں محمد نعمان نام لکھوائیں ۔اور یہی اصل نام بہت اچھا ہے محمد نعمان ۔
چونکہ نذر اور منّت دو طرح کی ہوتی ہے:
١/ نذرِ شرعی
 ٢/ نذرِ  عُرفی
 ١/ نذرِ  شرعی یہ ہے کہ اللہ پاک  کے لیے کوئی ایسی عبادت اپنے ذِمہ لازم کر لینا جو لازم نہیں تھی ، مثلاً   یہ کہنا کہ میرا یہ کام ہو جائے ،تو میں 100 نفل پڑھوں گی وغیرہ ۔
نذرِ شرعی کی کچھ شرائط ہوتی ہیں،اگر وہ پائی جائیں، تو  نذر کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے اور پورانہ کرنے سے آدمی گنہگار ہوتا ہے 
٢/ اور نذرِ عُرفی کا معنیٰ 
،نذرانہ  اور  ہدیہ ہے،مثلاً انبیائے کرام علیہم السلام  اور اولیائے عظام رحمۃ اللہ علیہم  کے لیےاس طرح  نذر ماننا  کہ اگر میرا فلاں کام ہوجائے ،تو میں فلاں بزرگ کے نام پر کھانا کھلاؤں گا ، یہ نذرِ عُرفی ہے  اسے پورا کرنا واجب  تو نہیں  ، البتہ بہترہے کہ اسے بھی پورا کیا جائے ۔
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
غیرواجب عبادت کو اپنے پر واجب کرلینا نذر ہے۔نذر شرعی میں یہ شرط ہے کہ ایسی چیز کی نذر مانی جائے جو کہیں نہ کہیں واجب ہو،جو چیزیں کہیں واجب نہ ہو اس کی نذر شرعی درست نہ ہوگی۔
دوسرے یہ کہ وہ کام عبادت ہو۔
تیسرے یہ کہ خالص ﷲ تعالٰی کے لیے ہوکسی بندے کے لیے نہ ہو کیونکہ نذر شرعی عبادت ہے اور عبادت صرف رب تعالٰی کی ہی ہوسکتی ہے،
ہاں نذر لغوی بمعنی نذرانہ بندوں کی ہوسکتی ہے مگر اس کا پورا کرنا شرعًا واجب نہیں۔فاتحہ بزرگان،گیارھویں شریف کی نذر ماننا شرعی نذر نہیں لغوی نذر ہے،بمعنی نذرانہ و ہدیہ ثواب کا۔ (المرات ج 5ص 340 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٥/٣/٢٠٢٢

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area