Type Here to Get Search Results !

اگر باپ بیٹے سے کہے اپنی بیوی کو طلاق دےدو تو کیا بیٹے کو طلاق دینا ضروری ہے؟

 (سوال نمبر 2152)
اگر باپ بیٹے سے کہے اپنی بیوی کو طلاق دےدو تو کیا بیٹے کو طلاق دینا ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ   
کیا فرماتے ہیں علماءکرام و مفتیان شرع متین  اس مسئلہ کے متعلق
کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے جس میں ہوکہ اگر باپ بیٹے سے کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو تو اس کے لیے طلاق دینا لازم ہے کیا؟  کیا اس طرح کا کوئی حکم ماں کے لیے بھی ہے کہ اگر ماں یہ کہے تو بیٹے کے لیے لازم ہے اپنی بیوی کو طلاق دینا؟  
شکرا جزیلا🌹
سائلہ:نور شہر لاہور پاکستان
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
اللہ سبحانہ و تعالی نے ہر ایک کے لئے حقوق متعین فرمایا ہے جہاں والدین کی اطاعت لازم و ضروری ہے وہیں بیوی کے حقوق بھی شوہر پر فرض ہے 

 ایک حدیثِ پاک ہے جس کا قریب یہ مفہوم ہے کہ والدین کی نافرمانی نہ کرو، گو وہ تمہیں بیوی کو طلاق دینے کو بھی کہیں
حدیثِ پاک کا منشا یہ  ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے  لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے  ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ 
مطلقا ایسی کوئی حدیث نہیں ہے بیوی کی کوئی غلطی ہو یا نہ ہو بس والدین کہ دے طلاق دےدو اب طلاق دینا واجب ایسی کوئی حدیث نہیں ہے 
 خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کا اپنے بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دینا یقینًا کسی معقول وجہ کی بنا پر ہوگا، ورنہ ایک جلیل القدر صحابی کبھی ظلم کا حکم نہ دیتے اور خود آپ ﷺ ان کی موافقت میں تائیدی حکم نہ فرماتے۔
کما فی مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 
عن معاذ قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال:  لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك (ولاتعقن والديك) 
أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و 
3/4/2022
2 رمضان المبارک

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area