(سوال نمبر 1559)
کب دیہات میں بعد الجمعہ ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا ضروری نہیں؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہمارا گاؤں دیہات میں ہیں اور دیہات میں جائز نہیں البتہ لوگ پڑھتے ہو تو منع نہ کرے بلکہ بعد جمعہ چار رکعت فرض ظہر باجماعت پڑھنا فرض ہیں۔لیکن ہمارے گاؤں کے امام نے کچھ جمعہ میں ہی یہ اعلان کیا کہ یہاں جمعہ نہیں ہیں۔۔اور ٣ جمعہ تک باجماعت ظہر کی جماعت بھی کرائی۔۔لیکن کچھ روز بعد جب کمیٹی نے انکے اپر جبر کرنے لگے اور کہے کہ آپ صرف جمعہ کہ نماز پڑھائے اور جمعہ بعد ہمارے مسجد میں ظہر نہیں ہوگی نہ ہوگی اور رہنا ہیں ایسا کرنا پڑےگا۔اب امام اگلے جمعہ سے باجماعت ظہر کی نماز بھی بند کر دیا اور نہ جماعت سے بعد جمعہ ظہر پڑھتا ہے۔لیکن کچھ اہل علم لوگ بہت دن سے بعد جمعہ ظہر پڑھتے ہیں امام نہ ہی انکے پیچھے پڑھتا نہ ہی جماعت سے تو سوال عرض یہ ہیں کہ ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہوگی ۔بحوالہ جواب عنایت فرمائے۔۔۔۔
سائل:-عبدالعزیز رضا،مہرا جگنج ،انڈیا ۔
_________(❤️)_________
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
صورت مستفسره کا جواب کچھ قدر تفصیل ہے ۔
شرائط جمعہ چھ ہیں
{۱} مصر یافنائے مصر {۲} بادشاہ {۳} وقت ِظہر
{۴} خطبہ {۵} جماعت {۶} اِذنِ عام،
(بہار شريعت ح ٤ ص١١٣)
اگر کسی گائوں میں عاقل بالغ اتنے لوگ ہوں کہ اگر سب اجائے تو بڑی مسجد میں نہیں سما سکتے اگرچہ سب نہیں اتے ایسی صورت میں جمعہ کی نماز اس گائوں میں جائز ہے، کم از کم ڈیڑھ دو سو لوگ جمع ہوجائیں بھر جمعہ کی نماز جائز ہوگی، پس بعد الجمعہ ظہر کی نماز کی حاجت نہیں۔
کما فی الدر المختار
المصر وهو ما لا یسع أکبر مساجده أهله المکلفین بها وعلیه فتوی أکثر الفقهاء.
’’مصر (شہر) سے مراد وہ بستی جس کی سب سے بڑی مسجد میں وہاں کے مکلف (عاقل بالغ مقیم مرد) نہ سما سکیں۔ اکثر فقہاء کا فتویٰ اسی پر ہے‘‘۔(حصفکي، الدر المختار، 2: 137، دار الفکر بیروت)
عند أبي یوسف رحمه ﷲ وعنه أنهم اذا اجتمعوا في أکبر مساجد هم لم یسعهم.
’’امام ابو یوسف رحمہ ﷲ کے نزدیک جامع مصر وہ جگہ ہے کہ جب وہاں کے لوگ سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو سما نہ سکیں‘‘۔(مرغیناني، الہدایۃ، 1: 82، المکتبۃ الاسلامیۃ)
ایسی صورت میں سارے شرائط جمعہ پالئے گئے ۔
اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”ہاں ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے یہ آئی ہے کہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد ،عاقل ،بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے ، وہ صحت جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی ۔۔۔ جس گاؤں میں یہ حالت پائی جائے اس میں اس روایت نوادر کی بنا پر جمعہ وعیدین ہو سکتے ہیں اگرچہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایک جماعت متاخرین نے اختیار فرمایا،
اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہر گز جمعہ جائز نہیں مذہب حنفی میں جائز نہیں ہو سکتا بلکہ گناہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج08،ص347،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
اور ایسی جگہ جہاں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ، وہاں ظہر کی نماز کے بارے میں علامہ شامی فرماتے ہیں
لو صلوا فی القری لزمھم أداء الظھر
اگر لوگ (ایسے)گاؤں میں (جہاں جمعہ جائزنہیں) جمعہ ادا کریں تو ان پر ظہر کی نماز ادا کرنا ہی ضروری ہے ۔
کمافی البدایہ
لا تصح الجمعة إلا في مصر جامع أو في مصلى المصر ولا تجوز في القرى " لقوله عليه الصلاة والسلام " لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع " والمصر الجامع كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وهذا عند أبي يوسف رحمه الله وعنه أنهم إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم والأول اختيار الكرخي وهو الظاهر والثاني اختيار الثلجي والحكم غير مقصور على المصلي بل تجوز في جميع أفنية المصر لأنها بمنزلته في حوائج أهله۔ (الهداية شرح البداية المبتدي)
لہذا مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ گائوں میں ظہر کی نماز باجماعت پر شدت نہ کی جائے جمعہ کی نماز باجماعت پڑھا دی جائے جماعت پر شدت نہ کی جائے
کیونکہ الفتنة أشد من القتل
البتہ اہل علم ضرور ظہر کی نماز پڑھیں اسی طرح امام پر ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہے اگر نہیں پڑھتا تو تارک فرض ہے ۔اور عمدا تارک فرض کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔
اگر قبل توبہ اس کے پیچھے نماز پڑھی اعادہ لازم ہے
مجتھد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کبیرہ کا علانیہ مرتکب فاسق معلن اور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اوراس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔فتاویٰ حجہ میں ہے و قدموا فاسقا یاثمون اگر انھوں نے فاسق کو مقدم کیا تو گنہگار ہوں گے۔(فتاویٰ رضویہ)
تبیین الحقائق میں ہے
لأن فی تقدیمه للإمامة تعظیمة وقد وجب علیھم إھانته شرعا
کیونکہ امامت کے لئے فاسق کی تقدیم میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ اس کی اہانت شرعًا واجب ہے
اسی صفحہ پر آگے ہے :اگر علانیہ فسق وفجور کرتا ہے اور دوسرا کوئی امامت کے قابل نہ مل سکے تو تنہا نماز پڑھیں۔
فإن تقدیم الفاسق إثم والصلاۃ خلفه مکروھة تحریما والجماعة واجبة فھما فی درجة واحدۃ ودرء المفاسد أھم من جلب المصالح
کیونکہ تقدیم ِ فاسق گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور جماعت واجب ہے، پس دونوں کا درجہ ایک ہوا، لیکن مصالح کے حصول سے مفاسد کو ختم کرنا اہم اور ضروری ہوتا ہے (فتاویٰ رضویہ مترجم ج:٦ ص:٦٠٢/مرکز اہلسنت برکات رضا)
ایک بھی نماز جان بوجھ کر چھوڑ دینا کبیرہ گُناہ ہے۔
جس نے قصداً (یعنی جان بوجھ کر) ایک وقت کی (نماز) چھوڑی ہزاروں برس جہنَّم میں رہنے کا مستحق ہوا، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ کر لے۔(فتاویٰ رضویہ ،ج ۹ ص،۱۵۸)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
١٧/١٠/٢٠٢١