(سوال نمبر 210)
حلال جانور کو بوقتِ مرگ ذبح کرنا کیسا ہے ؟
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حلال جانور کو وقتِ مرگ ذبح کرنا کیسا ہے ؟جب کہ بعض علما کا قول ہے کہ اچانک کسی جانور کا مر جانا گھر والوں کے سروں سے مصیبت کا ٹل جانا ہے
تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے آیا ذبح کر دیا جائے یا مرنے دیا جائے؟
جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں
المستفتی:- ابوطرب، رحمت لطیفی، نیپال ثم غازی پور یوپی
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عز وجل
مسلئہ مسئولہ بوقت مرگ حلال جانور کو ذبح کرنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں، شریعت نے جن جانوروں کو حلال قرار دیا ہے اسے حالت صحت یا حالت مرض کسی وقت بھی ذبح کر سکتے ہیں اس میں شرعا کوئی گناہ نہیں ہے البتہ مریض جانور کا گوشت کھا نے میں احتیاط برتنی چاہئے کہ اس کا گوشت انسانی صحت کے لئے نقصان دہ تو نہیں؟ اگر نہیں تو گوشت بھی کھا سکتے ہیں ۔جن صورتوں میں جن جانوروں کے گوشت حلال نہیں اس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
فرمان بارى تعالى ہے
تم پر مردار، اورخون، اور خنزير كا گوشت، اور جس پر اللہ تعالى علاوہ كسى اور كا نام ليا گيا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور جو اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو، اور جو كسى سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے كسى درندے نے پھاڑ كھايا ہو حرام كر ديا گيا ہے، ليكن جسے تم ذبح كر ڈالو تو وہ حرام نہيں ہے،
(المآئدۃ 3 ).
ابن كثير رحمہ اللہ علیہ اس آيت كى تفسير ميں فرماتے ہیں
قولہ تعالى ﴿ مگر جسے تم ذبح كر ڈالو ﴾. اس ميں ضمير اس طرف لوٹ رہى جس جانور ميں موت كا سبب پايا گيا اور اس كى زندگى ختم ہونے سے قبل اسے ذبح كر ليا گيا تو اس كى طرف لوٹےگى، اور يہ ضمير اس طرف لوٹ رہى ہے:
﴿ اور گلا گھٹنے سے مرنے والا، اور ضرب لگنے سے مرنے والا، اور اونچى جگہ سے گر كر مرنے والا، اور كسى كے سينگ مارنے سے مرنے والا اور جسے درندے چير پھاڑ ديں﴾ .
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 11 - 12 )
كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى ايك لونڈى سلع ( مدينہ ميں ايك پہاڑ ہے ) ميں بكرياں چرا رہى تھى اس نے ايك بكرى كو موت كى كشمش ميں ديكھا تو ايك پتھر توڑ كر بكرى ذبح كردى، تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے كہا اسے نہ كھاؤ حتى كہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے متعلق دريافت نہ كر لوں، انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں كھانے كا حكم ديا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2181 ).
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
حلال جانور کو بوقتِ مرگ ذبح کرنا کیسا ہے ؟
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حلال جانور کو وقتِ مرگ ذبح کرنا کیسا ہے ؟جب کہ بعض علما کا قول ہے کہ اچانک کسی جانور کا مر جانا گھر والوں کے سروں سے مصیبت کا ٹل جانا ہے
تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے آیا ذبح کر دیا جائے یا مرنے دیا جائے؟
جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں
المستفتی:- ابوطرب، رحمت لطیفی، نیپال ثم غازی پور یوپی
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عز وجل
مسلئہ مسئولہ بوقت مرگ حلال جانور کو ذبح کرنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں، شریعت نے جن جانوروں کو حلال قرار دیا ہے اسے حالت صحت یا حالت مرض کسی وقت بھی ذبح کر سکتے ہیں اس میں شرعا کوئی گناہ نہیں ہے البتہ مریض جانور کا گوشت کھا نے میں احتیاط برتنی چاہئے کہ اس کا گوشت انسانی صحت کے لئے نقصان دہ تو نہیں؟ اگر نہیں تو گوشت بھی کھا سکتے ہیں ۔جن صورتوں میں جن جانوروں کے گوشت حلال نہیں اس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
فرمان بارى تعالى ہے
تم پر مردار، اورخون، اور خنزير كا گوشت، اور جس پر اللہ تعالى علاوہ كسى اور كا نام ليا گيا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور جو اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو، اور جو كسى سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے كسى درندے نے پھاڑ كھايا ہو حرام كر ديا گيا ہے، ليكن جسے تم ذبح كر ڈالو تو وہ حرام نہيں ہے،
(المآئدۃ 3 ).
ابن كثير رحمہ اللہ علیہ اس آيت كى تفسير ميں فرماتے ہیں
قولہ تعالى ﴿ مگر جسے تم ذبح كر ڈالو ﴾. اس ميں ضمير اس طرف لوٹ رہى جس جانور ميں موت كا سبب پايا گيا اور اس كى زندگى ختم ہونے سے قبل اسے ذبح كر ليا گيا تو اس كى طرف لوٹےگى، اور يہ ضمير اس طرف لوٹ رہى ہے:
﴿ اور گلا گھٹنے سے مرنے والا، اور ضرب لگنے سے مرنے والا، اور اونچى جگہ سے گر كر مرنے والا، اور كسى كے سينگ مارنے سے مرنے والا اور جسے درندے چير پھاڑ ديں﴾ .
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 11 - 12 )
كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى ايك لونڈى سلع ( مدينہ ميں ايك پہاڑ ہے ) ميں بكرياں چرا رہى تھى اس نے ايك بكرى كو موت كى كشمش ميں ديكھا تو ايك پتھر توڑ كر بكرى ذبح كردى، تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے كہا اسے نہ كھاؤ حتى كہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے متعلق دريافت نہ كر لوں، انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں كھانے كا حكم ديا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2181 ).
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ:-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨سرها، خادم دارالافتاء البرقی سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔26/11/2020