Type Here to Get Search Results !

فضائل و مناقب امام حسین رضی اللہ عنہ

 فضائل و مناقب امام حسین رضی اللہ عنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ازقلم:-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سبطین رضا سبطین مرتضوی، دھامی گچھ،سوناپور،ضلع اتردیناج پور،مغربی بنگال

سیدالاذکیا، سید الشہدا ، سید اشباب اہل الجنہ، شمع آل محمد ، طور سینین ، نورالخالفین، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور شہزادئی رسول حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے ہیں۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ٥شعبان المعظم ٤ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، نبی‌ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو گود میں لے کر دائیں کان میں آذان اور بائیں میں اقامت کہی،پھر اپنا لعاب دہن منہ میں ڈالا،اور دعائے خیر کرتے ہوئے آپ کا نام مبارک ”حسین“ رکھا۔آپ کی کنیت ”ابوعبداللہ“ ہے اور سبط رسول،ریحانۃ الرسول وغیرہ آپ کے القاب ہیں۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہارون (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر وشبر رکھا تھا‌ اور میں نے اپنے بیٹوں کانام انہی کے نام پر حسن اور حسین رکھا۔(ابن حجر مکی) سریانی زبان میں شبیر و شبر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ایک حدیث شریف میں ہےکہ :”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ اِسْمَانِ مِنْ اَھْلِ الجَنَّۃِ“حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں۔(ابن حجر مکی)
آپ رضی اللہ عنہ کا شجرۂ نسب کچھ یوں ہے:حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بن امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عن بن ابی طالب بن حضرت عبدالمطلب۔تیسری پشت پر آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتے ہیں۔
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ ابھی سات (٧) سال ہی کے تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ظاہرا ان کے سر مبارک سے اٹھ گیا۔آپ کی تربیت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی قسم کی کوئی کمی نہ چھوڑی۔آپ رضی اللہ عنہ اس مختصر سی مدت میں اپنے نانا جان سے ظاہری و باطنی فیوض حاصل کرچکے تھے۔آپ عادات و اطوار میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بہترین نمونہ تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے خون سے دین اسلام کی آبیاری فرمائی۔
امیرالمومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ کے شہادت کے بعد اہل کوفہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے دست حق پر بیعت کرلیا۔بعد ازاں حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تحویل فرمادی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد یزید تخت نشین ہوا اور پھر ٦٠ھ میں کربلا کے میدان پر معرکۂ حق و باطل‌ ہوا جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے۔؀
تھا ، ہے، رہے گا زندۂ جاوید ان کا نام 
سبطین شہر یار امام حسین ہیں 
ولادت و شہادت کی پیشین گوئی:
حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کی کہ یارسول اللہ میں نے آج رات کو ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کیسا خواب؟ عرض کی بہت سخت۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہے وہ؟عرض کی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔ ان شاء اللہ فاطمہ کے ہاں صاحبزادے کی ولادت ہوگی جو آپ کی گود میں آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور میری گود میں آئے۔ جس کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔پھر ایک روز میں حضور نبی اکرم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور حسین کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ڈال دیا تو میں دیکھتی ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہیں میں نے سبب دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور انہوں نے خبر دی کہ عنقریب میری امت کے کچھ لوگ میرے اس بیٹے کو شہید کردیں گے میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ‌! صلی اللہ علیہ کیا وہ اس شہزادے کو شہید کردیں گے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے اس مقام کی سرخ مٹی لاکر دی ہے۔(مشکوٰۃ)
فضائل و مناقب:
اہل تشیع لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایسے ایسے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں جو حقائق سے دور ، مبالغہ سے بھرپور، اور نہ ہی جن کا عقل انسانی سے کوئی‌ واسطہ۔اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے صحیح فضائل و مناقب سے روشناس کرایا جائے،آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب بے شمار و لاتعداد ہیں جن کا ذکر کر پانا اس مختصر سی تحریر میں ناممکن و محال ہے البتہ چند معتبر و مستند فضائل درج ذیل ہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت حسن سینے سے لےکر سر تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ اور حضرت حسین سینے سے لے کر پیر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ ، ج ٨) 
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔(بخاری) 
زینب بنت ابی رافع سے روایت ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وصال کے وقت اپنے دونوں بیٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائیں اور عرض کیا یہ آپ کے دونوں بیٹے ہیں اپنی وراثت میں سے کسی چیز کا ان کو وارث بنائیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن کے لیے میری ہیبت و سرداری ہے اور حسین کے میری جرأت و سخاوت ہے۔ (تہذیب التہذیب ج ٢) 
حضرت یعلیٰ بن مروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے۔(ترمذی) 
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے پسند ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو وہ حسین بن علی کو دیکھے۔ (نور الابصار)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے حسن اور حسین سے محبت کی اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔(ابن ماجہ) 
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو اہل بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حسن و حسین سے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔ (ترمذی)
ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے مکان سے گزر رہے تھے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں پہنچی ، فوراً پلٹے اور جاکر حضرت فاطمہ سے فرمایا: کیا تو نہیں جانتی کہ حسین کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگےبڑھ کر انہیں اٹھا لیے اور جب تک امام حسین چپ نہ ہوئے آپ گھر سے باہر نہیں نکلے۔ (طبرانی) 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی اغوش میں لے لیا۔حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک سے کھیلنا شروع کردیا، حضور نے ان کا منہ کھول کر بوسہ لیا،پھر آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے اپنا محبوب بنا، اور جو اس سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر۔ (نور الابصار)
یہ چند سطور نواسہ رسول،جگر گوشۂ بتول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی فضائل و مناقب میں قلم بند کیے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی برکت سے میری،میرے والدین اور عالم اسلام کے تمام سنی صحیح العقیدہ لوگوں کی مغفرت فرمائے اور ہمیں صبر حسینی وجذبۂ حسینی سے سرشار فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
نبی کے نور کا مظہر حسین بن حیدر 
خدا کے شیر کا دلبر حسین بن حیدر 
ہے جس کے قلب میں سبطین عشق شاہ امم
وہی تو کہتا ہے اکثر حسین بن حیدر 
کتبہ:-محمد سبطین رضا سبطین مرتضوی ، دھامی گچھ، سوناپور، ضلع اتردیناج پور ، مغربی بنگال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area