(سوال نمبر 5061)
حضرت امام حسین کے نام کے آگے علیہ السلام لگانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت امام حسین کے نام کے آگے علیہ السلام لگانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
حضرت امام حسین کے نام کے آگے علیہ السلام لگانا کیسا ؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نہیں لگانا چاہیے کیونکہ شیعہ لوگ لگاتے ہیں. مدلل جواب عطا فرماۓ
سائل:-گلفام حسین, مہاراشٹرا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
حضرت امام حسین کے ساتھ علیہ السلام کہنا گناہ نہیں ہے بس بچاجائے تاکہ امتیاز باقی رہے انبیاء اور فِرِشتوں کے علاوہ کسی اور کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام اِسْتِقْلالاً یا اِبتداء نہ لکھا جائے اور نہ بولا جائے اہل تشیع کہتے ہیں یا نہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں شریعت کیا کہتی ہے ہمیں یہ دیکھنا ہے
عُلماء نے اسے اَنبیاء کرام عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص لکھا ہے
بہار شریعت ہے میں ہے
کسی کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام کہنا یہ انبیاء و ملائکہ عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص ہے مثلاً موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام ، جبریل عَلَیْہِ السَّلام۔ نبی اور فِرِشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے
(بہار شریعت ۳ / ص۴۶۵)
اَلبتَّہ ان کی تَبْعِیَّت میں غیر نبی پر دُرُود وسلام بھیجا گیا ہو تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
فتاوی فیض الرسول میں ہے
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمہور علماء کا مَذہَب یہ کہ اِسْتِقْلالاً واِبتداء نہیں جائز اور اِتباعا جائز ہے یعنی امام حسین عَلَیْہِ السَّلام کہنا جائز نہیں ہے اور امام حسین عَلٰی نَبِینا وَعَلَیْہِ السَّلام جائز ہے ۔ (فتاوی فیض الرسول ، ۱ / ۲۶۷)
علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
وَقَالَ أبُوْ حَنِیْفَۃَ وَ اَصْحَابُہٗ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِیُّ وَالْاَکْثَرُوْنَ اِنَّہٗ لاَ یُصَلّٰی عَلٰی غَیْرِ اْلَانْبِیَاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ اِسْتِقْلاَلاً، فَلاَ یُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ بَکر اَوْ عَلٰی اٰلِ عُمَرَ اَوْ غَیْرِھِمَا و لٰکِن یُّصَلّٰی عَلَیْہِمْ تَبْعاً (عمدۃ القاری ، کتاب الزکاۃ باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ وقولہ، ۶ / ۵۵۶)
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
لاَ یُصَلّ عَلٰی غَیْرِ الْأَنْبِیَائِ اِلَّا تَبْعاً لِاَنَّ الصَّلاَۃَ فِیْ لِسَانِ السَّلَفِ مَخْصُوْصَۃٌ بِالْاَنْبِیَاء صَلَواتُ اللّٰہ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ کَمَا اَنَّ قَوْلَنَا ’’عَزَّوَجَلَّ‘‘ مَخْصُوْصٌ بِاللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی فَکَمَا لَایُقَالُ مُحَمَّدٌ عَزَّوَجَلَّ وَاِنْ کَان عَزِیْزاً جَلِیْلًا لَا یُقَالُ اَبُوْ بَکْرٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِنْ صَحَّ الْمَعْنٰی (اِلٰی اَنْ قَال) وَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّہٗ یَجُوْزُ اَنْ یُّجْعَلَ غَیْرَ اْلَانْبِیَائِ تَبْعَاً لَّھُمْ فِیْ ذٰلِکَ فَیُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہ وَاَتْبَاعِہٖ لِاَنَّ السَّلَفَ لَمْ یَمْنَعُوْا مِنْہُ وَقَدْ اُمِرْنَا بِہٖ فِی التَّشَہُّدِ وَغَیْرِہ قَالَ الشَّیْخُ اَبُوْمُحَمَّدِ الجُوَیْنِیْ مِنْ اَئِمَّۃِ اَصْحَابِنَا اَلسَّلَامُ فِیْ مَعْنَی الصَّلَاۃِ وَلَایُفْرَدُ بِہٖ غَیْرُ الْاَنْبِیَائِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَرَنَ بَیْنَہُمَا وَلَا یُفْرَدُ بِہٖ غَائِبٌ وَلَا یُقَالُ قَالَ فُلَانٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ‘(شرح مسلم للنووی، باب الدعاء لمن اتی بصدقتہ، ۴ / ۱۸۵، الجزء السابع)
ان دونوں عبارتوں کا خُلاصہ یہ ہے کہ اِمام ابُو حَنیفہ، اُن کے اَصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اکثر عُلماء کا قول یہ ہے کہ غَیرِ نبی پر اِسْتِقْلالاً صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی، اَلبتَّہ تَبْعاً پڑھی جاسکتی ہے یعنی یوں نہیں کہا جائے گا اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍاَلبتَّہ یوں کہا جاسکتا ہے : اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلی اَبِیْ بَکْرٍ ۔ اس کے جَواز اور عَدمِ جَواز کی دلیل سلف صالحین کا عمل ہے اور جَواز باِلتَّبع کی دلیل تَشَہُّد وغیرہ دیگر مَقامات بھی ہیں جہاں باِلتَّبع پڑھنے کا حکم ہے ۔ اِمامُ الْحَرَمَیْن حضرت امام جُوَیْنی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ سلام بھی اس حکم میں صَلاۃ کے مَعْنی میں ہے ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کے لئے روانہیں ، ہاں بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُم کے لئے رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کہا جائے ، اَولیائے وعُلماء کو رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْھِمْ یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْھُمْ کہے جب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۳۹۰ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔25/07/2023
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
حضرت امام حسین کے ساتھ علیہ السلام کہنا گناہ نہیں ہے بس بچاجائے تاکہ امتیاز باقی رہے انبیاء اور فِرِشتوں کے علاوہ کسی اور کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام اِسْتِقْلالاً یا اِبتداء نہ لکھا جائے اور نہ بولا جائے اہل تشیع کہتے ہیں یا نہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں شریعت کیا کہتی ہے ہمیں یہ دیکھنا ہے
عُلماء نے اسے اَنبیاء کرام عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص لکھا ہے
بہار شریعت ہے میں ہے
کسی کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام کہنا یہ انبیاء و ملائکہ عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص ہے مثلاً موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام ، جبریل عَلَیْہِ السَّلام۔ نبی اور فِرِشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے
(بہار شریعت ۳ / ص۴۶۵)
اَلبتَّہ ان کی تَبْعِیَّت میں غیر نبی پر دُرُود وسلام بھیجا گیا ہو تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
فتاوی فیض الرسول میں ہے
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمہور علماء کا مَذہَب یہ کہ اِسْتِقْلالاً واِبتداء نہیں جائز اور اِتباعا جائز ہے یعنی امام حسین عَلَیْہِ السَّلام کہنا جائز نہیں ہے اور امام حسین عَلٰی نَبِینا وَعَلَیْہِ السَّلام جائز ہے ۔ (فتاوی فیض الرسول ، ۱ / ۲۶۷)
علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
وَقَالَ أبُوْ حَنِیْفَۃَ وَ اَصْحَابُہٗ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِیُّ وَالْاَکْثَرُوْنَ اِنَّہٗ لاَ یُصَلّٰی عَلٰی غَیْرِ اْلَانْبِیَاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ اِسْتِقْلاَلاً، فَلاَ یُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ بَکر اَوْ عَلٰی اٰلِ عُمَرَ اَوْ غَیْرِھِمَا و لٰکِن یُّصَلّٰی عَلَیْہِمْ تَبْعاً (عمدۃ القاری ، کتاب الزکاۃ باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ وقولہ، ۶ / ۵۵۶)
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں
لاَ یُصَلّ عَلٰی غَیْرِ الْأَنْبِیَائِ اِلَّا تَبْعاً لِاَنَّ الصَّلاَۃَ فِیْ لِسَانِ السَّلَفِ مَخْصُوْصَۃٌ بِالْاَنْبِیَاء صَلَواتُ اللّٰہ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِمْ کَمَا اَنَّ قَوْلَنَا ’’عَزَّوَجَلَّ‘‘ مَخْصُوْصٌ بِاللّٰہ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی فَکَمَا لَایُقَالُ مُحَمَّدٌ عَزَّوَجَلَّ وَاِنْ کَان عَزِیْزاً جَلِیْلًا لَا یُقَالُ اَبُوْ بَکْرٍ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاِنْ صَحَّ الْمَعْنٰی (اِلٰی اَنْ قَال) وَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّہٗ یَجُوْزُ اَنْ یُّجْعَلَ غَیْرَ اْلَانْبِیَائِ تَبْعَاً لَّھُمْ فِیْ ذٰلِکَ فَیُقَالُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہ وَاَتْبَاعِہٖ لِاَنَّ السَّلَفَ لَمْ یَمْنَعُوْا مِنْہُ وَقَدْ اُمِرْنَا بِہٖ فِی التَّشَہُّدِ وَغَیْرِہ قَالَ الشَّیْخُ اَبُوْمُحَمَّدِ الجُوَیْنِیْ مِنْ اَئِمَّۃِ اَصْحَابِنَا اَلسَّلَامُ فِیْ مَعْنَی الصَّلَاۃِ وَلَایُفْرَدُ بِہٖ غَیْرُ الْاَنْبِیَائِ لِاَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَرَنَ بَیْنَہُمَا وَلَا یُفْرَدُ بِہٖ غَائِبٌ وَلَا یُقَالُ قَالَ فُلَانٌ عَلَیْہِ السَّلاَمُ‘(شرح مسلم للنووی، باب الدعاء لمن اتی بصدقتہ، ۴ / ۱۸۵، الجزء السابع)
ان دونوں عبارتوں کا خُلاصہ یہ ہے کہ اِمام ابُو حَنیفہ، اُن کے اَصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اکثر عُلماء کا قول یہ ہے کہ غَیرِ نبی پر اِسْتِقْلالاً صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی، اَلبتَّہ تَبْعاً پڑھی جاسکتی ہے یعنی یوں نہیں کہا جائے گا اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍاَلبتَّہ یوں کہا جاسکتا ہے : اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلی اَبِیْ بَکْرٍ ۔ اس کے جَواز اور عَدمِ جَواز کی دلیل سلف صالحین کا عمل ہے اور جَواز باِلتَّبع کی دلیل تَشَہُّد وغیرہ دیگر مَقامات بھی ہیں جہاں باِلتَّبع پڑھنے کا حکم ہے ۔ اِمامُ الْحَرَمَیْن حضرت امام جُوَیْنی رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ سلام بھی اس حکم میں صَلاۃ کے مَعْنی میں ہے ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کے لئے روانہیں ، ہاں بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُم کے لئے رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کہا جائے ، اَولیائے وعُلماء کو رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْھِمْ یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْھُمْ کہے جب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۳۹۰ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔25/07/2023