(سوال نمبر 199)
ایک ہزار کے خرچ پر گیارہ سو کا بل بنانا کیسا ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ایک ہزار کے خرچ پر گیارہ سو کا بل بنانا کیسا ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
مسئلہ(1)لدھیانہ میں زیدکی اپنی فیکٹری ہے جب انکا مال تیار ہوکر مار کیٹ میں جاتا ہے توجس پارٹی کووہ مال دیتےہیں تو پارٹی کے ورکرز کو یعنی پارٹی کے مال بیچنے والے نوکروں کو الگ سے ہر پیس پر دس روپیہ پندرہ روپیہ اس لئے دیتے ہیں کہ وہ نوکر
انکا مال خاص توجہ سے بیچ دے جسے وہ انعام سمجھ کررکھ لیتاہے اور مال والے بھی انعام سمجھ کرہی دیتےہیں۔
مسئلہ(2) زید اپنی فیکٹری میں جس پارٹی کے آرڈر پر مال تیار کرتے ہیں تو خود پارٹی والافیکٹری والے کو کپڑا دھاگا بٹن وغیرہ دیتا ہے اب اگرایک ہزار کا کا خرچ آتا ہے تو فیکٹری والے پارٹی کوکچھ بڑھا کر بل بنا کردیتے ہیں جیسے اگرایک ہزار کا خرچ آیاہے تو گیارہ سوانا کردیتے ہیں
مسئلہ(1)لدھیانہ میں زیدکی اپنی فیکٹری ہے جب انکا مال تیار ہوکر مار کیٹ میں جاتا ہے توجس پارٹی کووہ مال دیتےہیں تو پارٹی کے ورکرز کو یعنی پارٹی کے مال بیچنے والے نوکروں کو الگ سے ہر پیس پر دس روپیہ پندرہ روپیہ اس لئے دیتے ہیں کہ وہ نوکر
انکا مال خاص توجہ سے بیچ دے جسے وہ انعام سمجھ کررکھ لیتاہے اور مال والے بھی انعام سمجھ کرہی دیتےہیں۔
مسئلہ(2) زید اپنی فیکٹری میں جس پارٹی کے آرڈر پر مال تیار کرتے ہیں تو خود پارٹی والافیکٹری والے کو کپڑا دھاگا بٹن وغیرہ دیتا ہے اب اگرایک ہزار کا کا خرچ آتا ہے تو فیکٹری والے پارٹی کوکچھ بڑھا کر بل بنا کردیتے ہیں جیسے اگرایک ہزار کا خرچ آیاہے تو گیارہ سوانا کردیتے ہیں
ہاں پارٹی والا یقیناغیرمسلم ہوتاہے۔نیز اگرفیکٹری والا ایسانہ کریے تو منافع بہت کم ہوگا
اور اصل مال پر پارٹی والےکی طرف سے فیکٹری والے کو
منافع بالکل نہ کے برابر ہوتاہے اسی لے وہ فیکٹری والےبل کچھ بڑھاکربناتےہیں تاکہ محنتانہ وصول ہوجائے ۔۔۔۔مفتیان کرام سے عرض ہےکہ ان دونوں مسئلوں کاشافی و کافی جواب سے نوازیں اوراس معاملہ میں شریعت اسلامیہ کا کیا حکم نافذ ہوگا وہ بھی بت
مکمل تفصیل سے حوالوں کےساتھ ان دو مسئلوں کو مزین فرمادیں عین نوازش ہوگی۔۔۔۔
المستفتی:-احمد محیی الدین قادری عرف منےبابولدھیانہ پنجاب
بتاریخ 17نومبربروزمنگل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اصل مال پر پارٹی والےکی طرف سے فیکٹری والے کو
منافع بالکل نہ کے برابر ہوتاہے اسی لے وہ فیکٹری والےبل کچھ بڑھاکربناتےہیں تاکہ محنتانہ وصول ہوجائے ۔۔۔۔مفتیان کرام سے عرض ہےکہ ان دونوں مسئلوں کاشافی و کافی جواب سے نوازیں اوراس معاملہ میں شریعت اسلامیہ کا کیا حکم نافذ ہوگا وہ بھی بت
مکمل تفصیل سے حوالوں کےساتھ ان دو مسئلوں کو مزین فرمادیں عین نوازش ہوگی۔۔۔۔
المستفتی:-احمد محیی الدین قادری عرف منےبابولدھیانہ پنجاب
بتاریخ 17نومبربروزمنگل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسلئہ مسئولہ میں مسئلہ نمبر ١ ایک میں جو صورت مذکور ہے اس رقم کو لینے اور دینے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کہ بطور انعام دیتے ہیں اور عمال بھی ہدیہ ہی سمجھ کر لیتے ہیں ۔
پر مسئلہ نمبر ٢ میں جو صورت مذکورہے وہ اصلا جائز نہیں ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے ۔اس لئے ایسا کرنا شرعا جائز نہیں ۔کہ کافر کا مال مباح بغیر جھوٹ اور خیانت کے لے سکتے ہیں اس کے سوا نہیں ۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرما تا ہے
إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون، 23: 51]
وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة، 2: 172]
ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟
اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا: {اے رُسُلِ (عظام!) تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو (جیسا کہ تمہارا معمول ہے) اور نیک عمل کرتے رہو، بے شک میں جو عمل بھی تم کرتے ہو اس سے خوب واقف ہوں}،
اور فرمایا:{اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں} پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو، اس کا لباس حرام ہو اور اس کی غذا حرام ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی؟
(مسلم، الصحيح، كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها، 2: 703، رقم: رقم: 1015، بيروت: دار إحياء التراث العربي)
درج بالا حدیث سے واضح ہوا کہ حرام ذرائع سے حاصل ہونے والے رزق سے انسان کی روحانیت بھی متاثر ہوتی ہے اور ایسا رزق راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی قبولیت مشکوک ہو جاتی ہے۔
اس لئے اس فعل سے اجتناب ضروری ہے۔
و اللہ و سولہ اعلم بالصواب
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسلئہ مسئولہ میں مسئلہ نمبر ١ ایک میں جو صورت مذکور ہے اس رقم کو لینے اور دینے میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کہ بطور انعام دیتے ہیں اور عمال بھی ہدیہ ہی سمجھ کر لیتے ہیں ۔
پر مسئلہ نمبر ٢ میں جو صورت مذکورہے وہ اصلا جائز نہیں ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے ۔اس لئے ایسا کرنا شرعا جائز نہیں ۔کہ کافر کا مال مباح بغیر جھوٹ اور خیانت کے لے سکتے ہیں اس کے سوا نہیں ۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرما تا ہے
إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون، 23: 51]
وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة، 2: 172]
ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟
اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا: {اے رُسُلِ (عظام!) تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو (جیسا کہ تمہارا معمول ہے) اور نیک عمل کرتے رہو، بے شک میں جو عمل بھی تم کرتے ہو اس سے خوب واقف ہوں}،
اور فرمایا:{اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں} پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو، اس کا لباس حرام ہو اور اس کی غذا حرام ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی؟
(مسلم، الصحيح، كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها، 2: 703، رقم: رقم: 1015، بيروت: دار إحياء التراث العربي)
درج بالا حدیث سے واضح ہوا کہ حرام ذرائع سے حاصل ہونے والے رزق سے انسان کی روحانیت بھی متاثر ہوتی ہے اور ایسا رزق راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی قبولیت مشکوک ہو جاتی ہے۔
اس لئے اس فعل سے اجتناب ضروری ہے۔
و اللہ و سولہ اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18 سرہا، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
الجواب صحيح والمحيب نجيح. مفتي محمد عابد حسين افلاك المصباحي صاحب..
الجواب صحيح والمحيب نجيح. مفتي محمد عابد حسين افلاك المصباحي صاحب..