(سوال نمبر 4090)
ٹوپی کے بغیر اور آمین بالجہر کہنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ خطبۂ جمعہ عربی کے علاوہ دیگر زبانوں میں پڑھنا کیسا ہے اور جو اذانِ ثانی خطبے سے قبل ہوتی ہے، کیا بغیر اذانِ ثانی کے ڈایریکٹ خطبہ (عربی و دیگر زبان میں مِکس) پڑھ لینے سے نمازِ جمعہ ہوگی یا نہیں اور بات یہ بھی ہے کہ نماز حنفی طریقے سے پڑھتے ہیں اور خود کو اہلسنّت وجماعت کہتے ہیں لیکن امام بغیر ٹوپی کے نماز پڑھاتے ہیں اور سورہ فاتحہ کے بعد بلند آواز سے آمین بھی کہتے ہیں ایسے میں جماعت میں شریک ہوکر نماز پڑھنا کیسا ہے نماز ہوگی یا ظہر کی نماز ادا کرنا صحیح رہے گا برائے کرم تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں
سائل:- شمیم احمد رضوی مقیم حال مالدیپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
ٹوپی کے بغیر اور آمین بالجہر کہنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ خطبۂ جمعہ عربی کے علاوہ دیگر زبانوں میں پڑھنا کیسا ہے اور جو اذانِ ثانی خطبے سے قبل ہوتی ہے، کیا بغیر اذانِ ثانی کے ڈایریکٹ خطبہ (عربی و دیگر زبان میں مِکس) پڑھ لینے سے نمازِ جمعہ ہوگی یا نہیں اور بات یہ بھی ہے کہ نماز حنفی طریقے سے پڑھتے ہیں اور خود کو اہلسنّت وجماعت کہتے ہیں لیکن امام بغیر ٹوپی کے نماز پڑھاتے ہیں اور سورہ فاتحہ کے بعد بلند آواز سے آمین بھی کہتے ہیں ایسے میں جماعت میں شریک ہوکر نماز پڑھنا کیسا ہے نماز ہوگی یا ظہر کی نماز ادا کرنا صحیح رہے گا برائے کرم تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں
سائل:- شمیم احمد رضوی مقیم حال مالدیپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
(1) عربی کے علاوہ دیگر زبان میں یا عربی کے ساتھ دوسری زبان ملانا سنت متوارثہ کے خلاف ہے
(2) دوسری اذان کے بغیر خطبہ پڑھ لینے سے بھی نماز خلاف سنت کے ساتھ ادا ہوگئی یعنی جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے دو خطبہ کا ہونا شرط ہے اسی طرح جمعہ کے لیے دو اذانیں دینا مسنون اور سنتِ متوارثہ ہے، جمعہ میں ایک اذان پر اکتفا کرنا سنت متوارثہ کے خلاف ہے مگر نماز ہوجائے گی
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(قوله: ويسن خطبتان) لاينافي ما مر من أن الخطبة شرط؛ لأن المسنون هو تكرارها مرتين، والشرط إحداهما۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 148)
جمعہ کا خطبہ عربی میں ہونا چاہیے در مختار میں ہے لان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم (درمختار ج ۲ ص ۱۸۰ باب العیدین)
فتاویٰ رضویہ میں ہے
زمان برکت نشان حضور پر نور سید الانس والجان علیہ وعلیٰ آلہ افضل الصلوٰۃ والسلام سے عہد صحابہ کرام وتابعین عظام وائمہ اعلام تک تمام قرون طبقات میں جمعہ و عیدین کے خطبے ہمیشہ خالص زبان عربی میں مذکورو ماثور اور باآنکہ صحابہ ومن بعدھم من ائمۃ الکرام کے زمانوں میں ہزارہا بلاد عجم فتح ہوئے ہزارہا جوامع بنیں ہزارہا منبر نصب ہوئے عامہ حاضرین اہل عجم ہوئے اور ان حضرات میں بہت وہ تھے کہ مفتوحین کی زبان جانتے اس میں اس سے کلام فرماتے باایں ہمہ کبھی مروی نہ ہوا کہ خطبہ غیر عربی میں فرمایا یا دونوں زبانوں کا ملایا ہو۔
(فتاویٰ رضویہ شریف ج ہشتم ص ۳۹۹ باب الجمعۃ، رضا فاؤنڈیشن )
اور بہار شریعت میں ہے
غیر عربی میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ یا دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا خلاف سنت متوارثہ ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ ( بہار شریعت ج اول ح۔چہارم ص ۷۶۹)
مذکورہ صورت میں امین بالجہر کہنا یہ حنفی امام نہیں ہے یہ حنبلی یا شافعی ہیں پھر وہ فقہ حنفی کی رعایت نہیں کرتے ہیں اگر قریب میں کوئی حنفی مسجد ہو پھر وہاں نماز ادا کرے ورنہ ظہر کی نماز پڑ ھیں ۔
واضح رہے کہ اور امام و مأموم کے مابین عقائد میں موافقت ضروری ہے اگر عدم موافقت ہے پھر ایسے امام کے پیچھے نماز کیوں کر صحیح ہوگئ
هدايه میں ہے
لِاَنَّهُ اِعْتَقَدَ اِمَامَهُ عَلَی الْخَطَاءِ.
(اس اقتداء کے عدم صحیح ہونے کہ وجہ ہے کہ) مقتدی نے اپنے امام کے خطاء پر ہونے کا اعتقاد کیا۔
اس سے واضح ہوا کہ نماز درست ہونے کیلئے ضروری ہے کہ مقتدی امام کے خطاء پر ہونے کا معتقد نہ ہو یعنی مطابقتِ اعتقادی ضروری ہے۔ بشرطیکہ مقتدی امام کی خطاء سے باخبر ہو اگر وہ امام کی خطاء سے لا علم ہے تو ایسی صورت میں اس کی نماز ہوجاتی ہے۔
مذکورہ صورت میں اگر وہاں کے امام سُنّی صحیح العقیدہ جنبلی ہے اور طہارت و شرائط و ارکان نماز میں مذہب حنفی کی رعایت کرتا ہے تو اس کے پیچھے حنفی کی نماز بلاکراہت جائز ہے اور اگر حنفی کو معلوم ہوکہ خاص اس نماز میں حنبلی امام نے مذہب حنفی کی رعایت نہیں کی ہے
مثلا خون نکلا اور اس نے وضو نہیں کیا یا چو تھائی سر سے کم کا اس نے مسح کیا،یا عصر یا عشاء کا وقت مذہب حنبلی کے مطابق ہوگیا تھا مگر ابھی مذہب حنفی کے اعتبار سے نماز کا وقت نہیں ہوا تھا اور اس نے عصر یا عشاء پڑھائی تو اس کے پیچھے حنفی کا نماز پڑھنا جائز نہیں.
فتاوی رضویہ میں ہے
اگر شافعی طہارت ونماز میں فرائض و ارکان میں مذہب حنفی کی رعایت کرتا ہے اس کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے اگر چہ حنفی کے پیچھے افضل ہے ،اور اگر حال رعایت و عدم رعایت معلوم نہ ہو تو قدرے کراہت کے ساتھ جائز اور اگر عادت ِ عدم ِ رعایت معلوم ہو تو کراہت شدید ہے اور اگر معلوم ہوکہ خاص اس نماز میں رعایت نہ کی تو حنفی کو اس کی اقتدا جائز نہیں اس کے پیچھے نماز نہ ہوگی صورتِ اول و دوم میں شریک ہوجائے اور صورتِ سوم میں شریک نہ ہو اور چہارم میں تو نماز ہی باطل ہے (فتاویٰ رضویہ ج ۳ ص ۲۲۸)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا اگر کسی شافعی یا حمبلی کی اقتدا میں حنفی نماز پڑھنا چاہے تو پہلے معلوم کرے کہ امام ہمارے مذہب کی رعایت کرتا ہے یا نہیں اگر رعایت نہ کرتا ہو تو اس کی اقتداء میں نماز درست نہیں ہے۔ ممکن ہو تو حنفی کے ساتھ جماعت کرے اگرچہ روم میں کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہو ورنہ تنہا پڑھے ۔اور جمعہ کی جگہ ظہر پڑھیں ۔
واضح رہے کہ عصر کے علاوہ باقی باجماعت نماز ادا کرنے میں حرج نہیں ہے جبکہ امام کی خطاء سے لا علم ہو پھر ایسی صورت میں نماز ہوجاتی ہے۔عصر کی نماز حنفی وقت سے پہلے نہ تنہا نہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
والله و رسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن شرعی سوال و جواب ضلع سرہا نیپال۔18/07/2023
(2) دوسری اذان کے بغیر خطبہ پڑھ لینے سے بھی نماز خلاف سنت کے ساتھ ادا ہوگئی یعنی جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے دو خطبہ کا ہونا شرط ہے اسی طرح جمعہ کے لیے دو اذانیں دینا مسنون اور سنتِ متوارثہ ہے، جمعہ میں ایک اذان پر اکتفا کرنا سنت متوارثہ کے خلاف ہے مگر نماز ہوجائے گی
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(قوله: ويسن خطبتان) لاينافي ما مر من أن الخطبة شرط؛ لأن المسنون هو تكرارها مرتين، والشرط إحداهما۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 148)
جمعہ کا خطبہ عربی میں ہونا چاہیے در مختار میں ہے لان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم (درمختار ج ۲ ص ۱۸۰ باب العیدین)
فتاویٰ رضویہ میں ہے
زمان برکت نشان حضور پر نور سید الانس والجان علیہ وعلیٰ آلہ افضل الصلوٰۃ والسلام سے عہد صحابہ کرام وتابعین عظام وائمہ اعلام تک تمام قرون طبقات میں جمعہ و عیدین کے خطبے ہمیشہ خالص زبان عربی میں مذکورو ماثور اور باآنکہ صحابہ ومن بعدھم من ائمۃ الکرام کے زمانوں میں ہزارہا بلاد عجم فتح ہوئے ہزارہا جوامع بنیں ہزارہا منبر نصب ہوئے عامہ حاضرین اہل عجم ہوئے اور ان حضرات میں بہت وہ تھے کہ مفتوحین کی زبان جانتے اس میں اس سے کلام فرماتے باایں ہمہ کبھی مروی نہ ہوا کہ خطبہ غیر عربی میں فرمایا یا دونوں زبانوں کا ملایا ہو۔
(فتاویٰ رضویہ شریف ج ہشتم ص ۳۹۹ باب الجمعۃ، رضا فاؤنڈیشن )
اور بہار شریعت میں ہے
غیر عربی میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ یا دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا خلاف سنت متوارثہ ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ ( بہار شریعت ج اول ح۔چہارم ص ۷۶۹)
مذکورہ صورت میں امین بالجہر کہنا یہ حنفی امام نہیں ہے یہ حنبلی یا شافعی ہیں پھر وہ فقہ حنفی کی رعایت نہیں کرتے ہیں اگر قریب میں کوئی حنفی مسجد ہو پھر وہاں نماز ادا کرے ورنہ ظہر کی نماز پڑ ھیں ۔
واضح رہے کہ اور امام و مأموم کے مابین عقائد میں موافقت ضروری ہے اگر عدم موافقت ہے پھر ایسے امام کے پیچھے نماز کیوں کر صحیح ہوگئ
هدايه میں ہے
لِاَنَّهُ اِعْتَقَدَ اِمَامَهُ عَلَی الْخَطَاءِ.
(اس اقتداء کے عدم صحیح ہونے کہ وجہ ہے کہ) مقتدی نے اپنے امام کے خطاء پر ہونے کا اعتقاد کیا۔
اس سے واضح ہوا کہ نماز درست ہونے کیلئے ضروری ہے کہ مقتدی امام کے خطاء پر ہونے کا معتقد نہ ہو یعنی مطابقتِ اعتقادی ضروری ہے۔ بشرطیکہ مقتدی امام کی خطاء سے باخبر ہو اگر وہ امام کی خطاء سے لا علم ہے تو ایسی صورت میں اس کی نماز ہوجاتی ہے۔
مذکورہ صورت میں اگر وہاں کے امام سُنّی صحیح العقیدہ جنبلی ہے اور طہارت و شرائط و ارکان نماز میں مذہب حنفی کی رعایت کرتا ہے تو اس کے پیچھے حنفی کی نماز بلاکراہت جائز ہے اور اگر حنفی کو معلوم ہوکہ خاص اس نماز میں حنبلی امام نے مذہب حنفی کی رعایت نہیں کی ہے
مثلا خون نکلا اور اس نے وضو نہیں کیا یا چو تھائی سر سے کم کا اس نے مسح کیا،یا عصر یا عشاء کا وقت مذہب حنبلی کے مطابق ہوگیا تھا مگر ابھی مذہب حنفی کے اعتبار سے نماز کا وقت نہیں ہوا تھا اور اس نے عصر یا عشاء پڑھائی تو اس کے پیچھے حنفی کا نماز پڑھنا جائز نہیں.
فتاوی رضویہ میں ہے
اگر شافعی طہارت ونماز میں فرائض و ارکان میں مذہب حنفی کی رعایت کرتا ہے اس کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے اگر چہ حنفی کے پیچھے افضل ہے ،اور اگر حال رعایت و عدم رعایت معلوم نہ ہو تو قدرے کراہت کے ساتھ جائز اور اگر عادت ِ عدم ِ رعایت معلوم ہو تو کراہت شدید ہے اور اگر معلوم ہوکہ خاص اس نماز میں رعایت نہ کی تو حنفی کو اس کی اقتدا جائز نہیں اس کے پیچھے نماز نہ ہوگی صورتِ اول و دوم میں شریک ہوجائے اور صورتِ سوم میں شریک نہ ہو اور چہارم میں تو نماز ہی باطل ہے (فتاویٰ رضویہ ج ۳ ص ۲۲۸)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا اگر کسی شافعی یا حمبلی کی اقتدا میں حنفی نماز پڑھنا چاہے تو پہلے معلوم کرے کہ امام ہمارے مذہب کی رعایت کرتا ہے یا نہیں اگر رعایت نہ کرتا ہو تو اس کی اقتداء میں نماز درست نہیں ہے۔ ممکن ہو تو حنفی کے ساتھ جماعت کرے اگرچہ روم میں کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہو ورنہ تنہا پڑھے ۔اور جمعہ کی جگہ ظہر پڑھیں ۔
واضح رہے کہ عصر کے علاوہ باقی باجماعت نماز ادا کرنے میں حرج نہیں ہے جبکہ امام کی خطاء سے لا علم ہو پھر ایسی صورت میں نماز ہوجاتی ہے۔عصر کی نماز حنفی وقت سے پہلے نہ تنہا نہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
والله و رسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن شرعی سوال و جواب ضلع سرہا نیپال۔18/07/2023