Type Here to Get Search Results !

کیا آج کے دور میں بھی لونڈی رکھنے کی اجازت ہے؟

(سوال نمبر 4014)
کیا آج کے دور میں بھی لونڈی رکھنے کی اجازت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کے دور میں بھی کیا لونڈی رکھنے کی اجازت ہے اگر ہے تو اس کا کیا طریقہ ہے؟
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی 
سائل:- محمد عمران ممبئی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عزوجل 
موجودہ دور میں لوڈیاں باندیاں نہیں رکھ سکتے ہیں کہ جائز نہیں ہے 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 
اور تم پر حرام کی گئی ہیں وہ عورتیں جو دوسروں کے نکاح میں ہوں مگر (کافروں کی) جن عورتوں کے تم مالک ہوجاؤ یہ حکم تم پر اللہ کا فرض کیا ہوا ہے۔ (النساء ٢٤ )
 لونڈی اور غلام اسے کہتے ہیں کہ میدان جنگ میں جو کافر قید ہوجائیں ان کو غلام بنالیا جاتا ہے اور امیر لشکر ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیتا ہے اور جو کافر عورتیں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوں اور قید ہوجائیں انکو باندیاں بنالیا جاتا ہے اور امیر لشکر ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیتا ہے اور ان باندیوں کے ساتھ ان کے مالک بغیر نکاح کے مباشرت کرسکتے ہیں۔
 واضح رہے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ روس جرمنی اور یورپی ممالک میں جو وحشیانہ مظالم کئے جاتے رہے اور ان سے جو جبری مشقتیں لی جاتی رہیں۔ اس کے مقابلہ میں اسلام نے غلاموں اور باندیوں کے ساتھ جس حسن سلوک کی ہدایت دی ہے اور ان کو آزاد کرنے پر جو اجر وثواب کی بشارتیں دی ہیں یہ ان ہی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا سے لونڈی اور غلاموں کا چلن ختم ہوگیا ‘ نیز یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اسلام نے یہ لازمی طور پر نہیں کہا کہ جنگی قیدیوں کو لونڈیاں اور غلام بنایا جائے بلکہ اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ ان کو بلافدیہ آزاد کردیا جائے یا جسمانی فدیہ کے بدلہ میں آزاد کردیا جائے یا ان کو لونڈی اور غلام بنالیا جائے چونکہ اس زمانہ میں جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانے کا رواج تھا ‘ اس لئے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ اگر وہ تمہارے قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنائیں تو تم بھی مکافات عمل کے طور پر ان کے قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنا سکتے ہو۔ اگر وہ تمہارے قیدیوں کو مالی فدیہ کے بدلے میں آزاد کریں تو تم بھی ان کے قیدیوں کو مالی فدیہ کے بدلہ میں آزاد کردو ‘ اور اگر وہ تمہارے جنگی قیدیوں سے اپنے قیدیوں کا تبادلہ کریں تو تم بھی ان کے جنگی قیدیوں سے اپنے قیدیوں کا تبادلہ کرلو اور اگر وہ تبرع اور احسان کرکے تمہارے جنگی قیدیوں کو بلامعاوضہ چھوڑ دیں مسلمان مکارم اخلاق اور تبرع اور احسان کرنے کے زیادہ لائق ہیں۔
 قرآن مجید میں ہے 
 فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق فاما منا بعد واما فدآء حتی تضع الحرب اوزارھا (محمد ٤) 
جب تم کافروں سے نبرد آزما ہو تو ان کی گردنیں اڑا دو ‘ یہاں تک کہ جب تم ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ گرفتار ہوں ان کو مضبوطی سے قید کرلو پھر یا تو ان پر محض احسان کرکے ان کو آزاد کردو یا ان سے (مالی یا بدنی) فدیہ لے کر ان کو آزاد کردو۔ اور اگر کافر مسلمانوں کے جنگی قیدیوں کو لونڈی یا غلام بنائیں تو مکافات عمل کے طور پر انکے جنگی قیدیوں کو بھی لونڈی اور غلام بنانا جائز ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 
وجزآء سیئۃ سیئۃ مثلھا (الشوری ٤٠ )
برائی کا بدلہ تو اس کی مثل برائی ہے۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے لازمی طور پر جنگی قیدیوں کو لونڈی یا غلام بنانے کی ہدایت نہیں دی ہے۔ ہم نے قرآن مجید کی آیت سے یہ بیان کیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو بلامعاوضہ یا مالی یا جانی فدیہ لے کر آزاد کرنا اسلام میں جائز ہے
حدیث پاک میں ہے 
١/ مکہ جنگ سے فتح ہوا تھا اور تمام اہل مکہ جنگی قیدی تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امتنانا ان کو آزاد کردیا۔ 
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 
٢/ حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگیا اس کو امان ہے اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اس کو امان ہے۔(صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٧٨٠‘)
٣/ امام ابو محمد عبدالملک بن ہشام متوفی ٢١٣ ھ روایت کرتے ہیں
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہوئے اور فرمایا لا الا اللہ وحدہ لاشریک لہ اللہ نے اپنے وعدہ کو سچا کیا۔ اپنے بندہ کی مدد فرمائی اور صرف اسی نے تمام لشکروں کو شکست دی ‘ سنو زمانہ جاہلیت کی ہر زیادتی ‘ ہر خون اور ہر مال آج میرے قدموں کے نیچے ہے یہاں کعبہ کی چوکھٹ اور حجاج کی سبیل پر ‘ اے قریش کی جماعت اللہ نے تم سے زمانہ جاہلیت کے تکبر اور باپ دادا پر فخر کو دور کردیا ہے ‘ تمام انسان آدم سے پیدا کئے گئے ہیں اور آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ نے فرمایا جاؤ تم سب آزاد ہو۔ (مختصرا) (السیرۃ النبویہ لابن ہشام علی ہامش الروض الانف ج ٢ ص ٢٧٤‘ مطبوعہ مطبعہ فاروقیہ ملتان ١٣٩٧ ھ )
٤/ امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ نے اس خطبہ کو زیادہ تفصیل کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے روایت کیا ہے۔ (سنن کبری ج ٩ ص ١١٨‘ مطبوعہ نشرالسنہ ملتان) 
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد بن ھمام حنفی متوفی ٨٦١ ھ لکھتے ہیں : 
امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ سے ایک روایت یہ ہے کہ جنگی قیدیوں سے فدیہ نہ لیا جائے قدوری اور صاحب ہدایہ کا یہی مختار ہے 
واضح رہے کہ نکاح کے بعد بیویوں سے مباشرت کرنا اور ان کے جسم پر خواہی نخواہی مالکانہ تصرف کرنا کیونکر اخلاقی فعل ہوگیا ؟ نکاح کی حقیقت صرف یہ ہے کہ دو مسلمان گواہوں کے سامنے ایک عورت خود یا اس کا وکیل کہے کہ میں اس شخص کے ساتھ اتنے مہر کے عوض خود کو یا اپنی موکلہ کو نکاح میں دیتا ہوں اور مرد کہے میں نے قبول کیا ‘ اور امام مالک کے نزدیک گواہوں کا ہونا بھی شرط نہیں ہے کسی مجمع عام میں ایجاب و قبول کرلیا جائے تو نکاح ہوجاتا ہے آخر ایجاب و قبول کے ان کلمات میں کیا تاثیر ہے کہ ایک عورت بالکلیہ مرد پر حلال ہوجاتی ہے ؟ 
اصل واقعہ یہ ہے کہ محض ایجاب و قبول سے عورت مرد پر حلال نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے حلال ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے نکاح کی اس خاص صورت میں عورتوں کو مردوں پر حلال کردیا ہے ورنہ تنہائی میں اگر عورت اور مرد ایجاب و قبول کے یہی کلمات کہہ لیں تو وہ ایک دوسرے پر حلال نہیں ہیں، بلکہ نکاح کے بعد بھی بیوی کے ساتھ مباشرت کرنا مطلقا حلال نہیں ہے۔ حیض اور نفاس کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے اس کو بیوی سے مباشرت کی اجازت نہیں دی ہے اس لئے ان ایام میں بیوی سے مباشرت کرنا مرد کے لئے جائز نہیں ہے ‘ اس سے واضح ہوگیا کہ عورت کے مرد پر حلال ہونے کا سبب نکاح نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے ‘ اگر اللہ تعالیٰ نکاح کی صورت میں اجازت دے تو بیویاں شوہروں پر حلال ہوجاتی ہیں اور اگر اللہ ملک یمین کی صورت میں اجازت دے تو باندیاں مالکوں پر حلال ہوجاتی ہیں ‘ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد وہ قابل اعتراض نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد یہ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔  اللہ تعالیٰ نے باندیوں کو مالکوں پر حلال کردیا ہے بشرطیکہ اس کا باندی ہونا شرعا صحیح ہو ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 
١/ فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ اوماملکت ایمانکم “۔ (النساء : ٣) 
اگر تم کو یہ اندیشہ ہو کہ تم ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل نہیں کرسکو گے تو ایک بیوی پر قناعت کرو یا اپنی باندیوں پر اکتفاء کرو۔ 
٢/ والمحصنات من النسآء الا ما ملکت ایمانکم “۔ (النساء : ٢٤) 
دوسروں کی بیویاں تم پر حرام ہیں البتہ تمہاری باندیاں تم پر حرام نہیں۔ 
٣/ والذین ھم لفروجھم حافظون، الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیرملومین، (المؤمنون : ٥۔ ٦‘ المعارج : ٣٠۔ ٢٩) 
 اور جو لوگ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اپنی بیویوں اور باندیوں سے مباشرت کرنے میں ان پر ملامت نہیں ہے۔ ان کے علاوہ قرآن مجید میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں باندیوں کے ساتھ مباشرت کی اجازت دی گئی ہے۔ 
یاد رہے کہ جب سے دنیا میں لونڈی اور غلام بنانے کا رواج ہوا لونڈیوں کے ساتھ یہی معاملہ روا رکھا گیا ہے اس لئے اگر کافر مسلمانوں کے ساتھ یہ معاملہ کریں تو ان کے ساتھ بھی عمل مکافات کے طور پر یہی معاملہ روا رکھا گیا ‘ لیکن جو شخص کسی باندی کے ساتھ مباشرت کرتا ہے اور اس سے اولاد ہوجاتی ہے تو وہ اس کی حقیقی اولاد اور اس کی وارث ہوتی ہے اور وہ باندی ام ولد ہوجاتی ہے اور اس شخص کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہوجاتی ہے ‘ اسلام نے غلامی کے رواج کو ختم کرنے کے لئے بہت اقدامات کئے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے بہت بشارتیں دیں ہیں ‘ اور اس کے نتیجہ میں اب دنیا سے غلامی کا چلن ختم ہوگیا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 
 اور ان کے علاوہ سب عورتیں تم پر حلال کی گئی ہیں کہ تم اپنے مال (مہر) کے عوض ان کو طلب کرو۔ (النساء : ٢٤ )
اس آیت میں امام اعظم ابوحنیفہ کی یہ دلیل ہے کہ مہر مال ہوتا ہے۔
 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 
پھر جن عورتوں سے (نکاح کرکے) تم نے مہر کے عوض تمتع کیا ہے (لذت حاصل کی ہے) تو ان عورتوں کو ان کا مہر ادا کردو۔ (النساء : ٢٤ )
(ماخوذ تفسیر تبیان القران)
والله و رسوله أعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
10/07/2023 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area