(سوال نمبر 4085)
اگر بدون نیت طلاق شوہر بیوی سے کہے تم میری طرف سے آزاد ہو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام کے بارے میں کہ
اگر شوہر کی نیت طلاق کی نا ہو اؤر کسی اؤر وجہ سے یہ الفاظ بولے کہ تم آزاد ہو میری طرف سے تو کیا طلاق ہو جائے گی؟ رہنمائی فرما دیں شکریہ
گروپ کن فیکون سائلہ:- مدیحہ جھنگ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
طلاق کوئی ہنسی مذاق نہیں جو طلاق کے بغیر بلا وجہ کہی جائے نہ تو شوہر اسے باندھ کر قید کیا ہوتا ہے جو بولے گا تم میری طرف سے آزاد ہو ۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں
الکنايات لايقع الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال
'کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی(الہدایۃ شرح البدایہ، 1 : 241، المکتبۃ اسلامیۃ۔)
یعنی جب اشارہ کنایہ الفاظ بولے جائیں یعنی صریح طلاق کا لفظ نہ بولا جائے تو طلاق دو صورتوں میں واقع ہوتی ہے پہلی صورت یہ ہے کہ جب یہ الفاظ طلاق کی نیت سے بولے جائیں
دوسری صورت یہ ہے کہ جب ماحول ایسا پایا جائے یا ان الفاظ سے کچھ اور مراد نہ لیا جائے مثلا عورت طلاق کا مطالبہ کر رہی ہو۔ اس وقت کہہ دیا جائے تم آزاد ہو، فارغ ہو، تیرا میرا تعلق ختم وغیرہ وغیرہ تو طلاق بائن ہو جاتی ہے، یا پھر صورت حال ایسی ہو کہ اس کنایہ لفظ سے مراد طلاق ہی لی جا سکتی ہو کوئی اور معنی نہ نکلتا ہو۔
یعنی عرف میں وہاں کے معاشرے میں آزاد سے طلاق ہی سمجھی جاتی ہو پھر بدون نیت بھی لفظ آزاد کنایہ سے طلاق بائن واقع ہوگئ اگر عرف نہ ہو پھر بدون نیت نہیں ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(قوله: ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالباً، كما يفيده كلام البحر. وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية، وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقاً كما قدمناه؛ لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر، كما مر (قوله: ولو بالفارسية) فما لايستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 247)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه علی النیہ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252)
اس لئے اگر عرف ہو یا طلاق کی نیت ہو یا حال دلالت کرے پھر طلاق بائنہ واقع ہوگی عدت کے بعد عورت آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر دونوں رضامند ہوں تو عدت کے اندر بھی اور عدت کے بعد بھی دوبارہ نکاح کر کے بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں لیکن یاد رہے دونوں کے دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس زندگی میں اگر ایک دی ہو تو دو اور دو دی ہو تو ایک بار طلاق دینے کا حق رہ جائے گا
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔18/07/2023
اگر بدون نیت طلاق شوہر بیوی سے کہے تم میری طرف سے آزاد ہو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام کے بارے میں کہ
اگر شوہر کی نیت طلاق کی نا ہو اؤر کسی اؤر وجہ سے یہ الفاظ بولے کہ تم آزاد ہو میری طرف سے تو کیا طلاق ہو جائے گی؟ رہنمائی فرما دیں شکریہ
گروپ کن فیکون سائلہ:- مدیحہ جھنگ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
طلاق کوئی ہنسی مذاق نہیں جو طلاق کے بغیر بلا وجہ کہی جائے نہ تو شوہر اسے باندھ کر قید کیا ہوتا ہے جو بولے گا تم میری طرف سے آزاد ہو ۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں
الکنايات لايقع الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال
'کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی(الہدایۃ شرح البدایہ، 1 : 241، المکتبۃ اسلامیۃ۔)
یعنی جب اشارہ کنایہ الفاظ بولے جائیں یعنی صریح طلاق کا لفظ نہ بولا جائے تو طلاق دو صورتوں میں واقع ہوتی ہے پہلی صورت یہ ہے کہ جب یہ الفاظ طلاق کی نیت سے بولے جائیں
دوسری صورت یہ ہے کہ جب ماحول ایسا پایا جائے یا ان الفاظ سے کچھ اور مراد نہ لیا جائے مثلا عورت طلاق کا مطالبہ کر رہی ہو۔ اس وقت کہہ دیا جائے تم آزاد ہو، فارغ ہو، تیرا میرا تعلق ختم وغیرہ وغیرہ تو طلاق بائن ہو جاتی ہے، یا پھر صورت حال ایسی ہو کہ اس کنایہ لفظ سے مراد طلاق ہی لی جا سکتی ہو کوئی اور معنی نہ نکلتا ہو۔
یعنی عرف میں وہاں کے معاشرے میں آزاد سے طلاق ہی سمجھی جاتی ہو پھر بدون نیت بھی لفظ آزاد کنایہ سے طلاق بائن واقع ہوگئ اگر عرف نہ ہو پھر بدون نیت نہیں ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(قوله: ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالباً، كما يفيده كلام البحر. وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية، وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقاً كما قدمناه؛ لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر، كما مر (قوله: ولو بالفارسية) فما لايستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 247)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه علی النیہ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252)
اس لئے اگر عرف ہو یا طلاق کی نیت ہو یا حال دلالت کرے پھر طلاق بائنہ واقع ہوگی عدت کے بعد عورت آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر دونوں رضامند ہوں تو عدت کے اندر بھی اور عدت کے بعد بھی دوبارہ نکاح کر کے بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں لیکن یاد رہے دونوں کے دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس زندگی میں اگر ایک دی ہو تو دو اور دو دی ہو تو ایک بار طلاق دینے کا حق رہ جائے گا
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔18/07/2023