Type Here to Get Search Results !

شادی سے پہلے منگیتر سے بات کرنا کیسا ؟

شادی سے پہلے منگیتر سے بات کرنا کیسا ؟
:---------------------------:-
✍️مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
زید کی ہندہ سے منگنی ہوگئی لیکن شادی ایک سال بعد ہوگی تو کیا زید اپنی منگیتر سے بات کرسکتا ہے یا نہیں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی:- عبد اللہ
:--------------------------:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب -بعون الملک الوھاب۔
زید کا جب تک ہندہ سے نکاح نہ ہو جائے اس کے حق میں ہندہ اجنبیہ ہے اور بلا حاجت اجنبیہ سے بات چیت کرنا ناجائز ہے۔ حتی کہ بلند آواز سے جوان اجنبیہ عورت کے سلام یا چھینک کے جواب دینے کی بھی اجازت نہیں ہے۔حالانکہ سلام و چھینک کا جواب دینا واجب ہے تو جب اجنبیہ جوان عورت کو بلند آواز کے سلام و چھینک کے جواب دینے کی اجازت نہیں تو بھلا بات چیت کرنے خاص کر ایسی بات چیت جس سے دل بہلے اور لذت پائے کی اجازت کب ہوسکتی ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں زید کا بلاحاجت شرعیہ ہندہ سے بات کرنا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔
قرآن مجید میں ہے:
 إنَّ السَّمْعَ وَالبَصَرَ والفُؤادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً [ الإسراء : ٣٦]
حدیث شریف میں ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَى، مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ، فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ، وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ،" اھ (صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٦٥٧، کتاب القدر، باب قدر علی ابن آدم حظہ من الزنا وغیرہ۔)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"ولايكلم الأجنبية إلا عجوزاً عطست أو سلّمت فيشمتها و يرد السلام عليها، وإلا لا"
 اسی کے تحت رد المحتار میں ہے:
(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزاً بل شابةً لا يشمّتها، ولا يرد السلام بلسانه" اھ (ج٩، ص٥٣٠، کتاب الحظر والاباحۃ، دار عالم الکتب الریاض)
علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"(قَوْلُهُ وَصَوْتِهَا) مَعْطُوفٌ عَلَى الْمُسْتَثْنَى يَعْنِي أَنَّهُ لَيْسَ بِعَوْرَةٍ ح (قَوْلُهُ عَلَى الرَّاجِحِ) عِبَارَةُ الْبَحْرِ عَنْ الْحِلْيَةِ أَنَّهُ الْأَشْبَهُ. وَفِي النَّهْرِ وَهُوَ الَّذِي يَنْبَغِي اعْتِمَادُهُ. وَمُقَابِلُهُ مَا فِي النَّوَازِلِ: نَغْمَةُ الْمَرْأَةِ عَوْرَةٌ، وَتَعَلُّمُهَا الْقُرْآنَ مِنْ الْمَرْأَةِ أَحَبُّ. قَالَ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ» فَلَا يَحْسُنُ أَنْ يَسْمَعَهَا الرَّجُلُ. اهـ. وَفِي الْكَافِي: وَلَا تُلَبِّي جَهْرًا لِأَنَّ صَوْتَهَا عَوْرَةٌ، وَمَشَى عَلَيْهِ فِي الْمُحِيطِ فِي بَابِ الْأَذَانِ بَحْرٌ ۔ قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَعَلَى هَذَا لَوْ قِيلَ إذَا جَهَرَتْ بِالْقِرَاءَةِ فِي الصَّلَاةِ فَسَدَتْ كَانَ مُتَّجَهًا، وَلِهَذَا مَنَعَهَا – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – مِنْ التَّسْبِيحِ بِالصَّوْتِ لِإِعْلَامِ الْإِمَامِ بِسَهْوِهِ إلَى التَّصْفِيقِ اهـ وَأَقَرَّهُ الْبُرْهَانُ الْحَلَبِيُّ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ الْكَبِيرِ، وَكَذَا فِي الْإِمْدَادِ؛ ثُمَّ نَقَلَ عَنْ خَطِّ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيَّ : ذَكَرَ الْإِمَامُ أَبُو الْعَبَّاسِ الْقُرْطُبِيُّ فِي كِتَابِهِ فِي السَّمَاعِ: وَلَا يَظُنُّ مَنْ لَا فِطْنَةَ عِنْدَهُ أَنَّا إذَا قُلْنَا صَوْتُ الْمَرْأَةِ عَوْرَةٌ أَنَّا نُرِيدُ بِذَلِكَ كَلَامَهَا، لِأَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِصَحِيحٍ ۔ فَإِذًا نُجِيزُ الْكَلَامَ مَعَ النِّسَاءِ لِلْأَجَانِبِ وَمُحَاوَرَتِهِنَّ عِنْدَ الْحَاجَةِ إلَى ذَلِكَ، وَلَا نُجِيزُ لَهُنَّ رَفْعَ أَصْوَاتِهِنَّ وَلَا تَمْطِيطَهَا وَلَا تَلْيِينَهَا وَتَقْطِيعَهَا لِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ اسْتِمَالَةِ الرِّجَالِ إلَيْهِنَّ وَتَحْرِيكِ الشَّهَوَاتِ مِنْهُمْ، وَمِنْ هَذَا لَمْ يَجُزْ أَنْ تُؤَذِّنَ الْمَرْأَةُ. اهـ. قُلْت: وَيُشِيرُ إلَى هَذَا تَعْبِيرُ النَّوَازِلِ بِالنَّغْمَةِ”۔ اھ (رد المحتار علی الدر المختار، ج٢، ص٧٨ ، ٧٩ ، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب فی ستر العورۃ، مطبوعہ دار عالم الکتب الریاض) 

واللہ تعالیٰ ورسولہ ﷺ اعلم بالصواب۔

کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area