اسلامی وشمسی نئے سال کی مبارکباد دینا کیسا ؟
:------------------------:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
لوگ کہتے ہیں محرم الحرام میں امام عالی مقام امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی ہے۔۔ اور اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے۔۔اس لیے مبارکباد نہیں دینا چاہئے۔؟؟ اور شمسی سال کے تعلق سے بھی کہا جاتا ہے کہ مبارکباد نہیں دینا چاہیے؟ اس کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں کرم ہوگا؟؟
جواب عنایت فرمائیں۔؟؟
سائل:- کاملی محفوظ الرحمن.. اسلام پورہ مالیگاؤں
جواب عنایت فرمائیں۔؟؟
سائل:- کاملی محفوظ الرحمن.. اسلام پورہ مالیگاؤں
:--------------------------:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے خیر و برکت کی دعا دینے اور نیک تمناؤں کا اظہار کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہيں، خاص طور پر جب اس کا مقصد محبت و الفت کا تعلق قائم کرنا اور خوشدلی کے ساتھ پیش آنا ہو۔ نئے سال کی مبارکباد دینے والا اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمیں زندگی کا ایک اور سال بھی دکھا دیا ہے، جس میں ہمیں توبہ و استغفار اور نیک عمل کمانے کا مزید موقع میسر آسکتا ہے۔ یہ مبارکباد خوشی اور اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار ہے۔ یہ نہ تو شرعی حکم ہے اور نہ اس کی قطعی ممانعت ہے، یہ ایک مباح عمل ہے۔
ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو چھ حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب اسے خوشی پہنچے تو اسے مبارکباد دے۔ حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت جسے امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں درج کیا، اس میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ نئے سال یا مہینے کی آمد پہ وہ ایک دوسرے کو درج ذیل دعا سکھاتے تھے:
اللّٰهُمَّ أدْخِلْهُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍ مِّنَ الشَّیْطَانِ.
اے اللہ! اس (نئے مہینے یا نئے سال) کو ہمارے اوپر امن و ایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔
📚الطبرانی، المعجم الاوسط، 6: 221، حدیث: 6241📚
✒️اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مباح عمل سمجھتے ہوئے نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر مبارکباد دینا، دعا دینا، نیک تمناؤں اور جذبات کا اظہار کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے جو چھ حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب اسے خوشی پہنچے تو اسے مبارکباد دے۔ حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت جسے امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں درج کیا، اس میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ نئے سال یا مہینے کی آمد پہ وہ ایک دوسرے کو درج ذیل دعا سکھاتے تھے:
اللّٰهُمَّ أدْخِلْهُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍ مِّنَ الشَّیْطَانِ.
اے اللہ! اس (نئے مہینے یا نئے سال) کو ہمارے اوپر امن و ایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی، نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔
📚الطبرانی، المعجم الاوسط، 6: 221، حدیث: 6241📚
✒️اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مباح عمل سمجھتے ہوئے نئے شمسی یا قمری سال کے آغاز پر مبارکباد دینا، دعا دینا، نیک تمناؤں اور جذبات کا اظہار کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمدرضا مرکزی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں