قرض لیکر بھول جانا کیسا ہے ؟
:--------------------------
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ قرض لیکر بھول جانا کیسا ہے؟ مثلا زید نے ہندہ سے کچھ پیسے بطور قرض لئے پھر زید ادائے دین کو بھول گیا تو ایسی صورت میں حکم شرع کیا ہے واضح فرماکر عند اللہ ماجور ہوں.
سائل:- محمد علاء الدین عزیزی بہرائچ شریف.
:---------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب:-بعون الملک الوھاب-
اداء قرض کا اہتمام لازم ہے اس میں سستی و لاپرواہی نہ چاہئے اور دائن و مدیون (یعنی قرض دینے والا اور قرض لینے والا) میں سے کوئی ایک بھول جائے تو دوسرے کو یاد دلانا چاہئے ہاں اگر دونوں بھول جائیں تو جب بھی مدیون کو یاد آجائے یا یاد دلادیا جائے تو قرض ادا کردے لیکن اگر مدیون بھولا رہا تو رب تعالی کی رحمت سے امید ہیکہ اس پر کچھ گناہ نہ ہوگا.
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا "ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل"الاية (سورة التوبة :188)
ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ (کنزالایمان)
عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اَن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال اِن اللہ تعالی تَجَاوَزَ لِی عن اُمتی الخطاءَ والنسیانَ وما استُکرِھُوا علیہ
(حدیث حسن رواہ ابن ماجہ والبیہقی وغیرھما) ماخوذ از متن الاربعین النوویۃ(ص: 52)
یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطاء و نسیان اور وہ ناجائز فعل جس پر مجبور کئے جائیں معاف فرمادیا ہے.
وفی ردالمحتار تحت قولہ(ولیس) "ای النسیان عذرا فی حقوق العباد ای من حیث ترتب الحکم علی فعلہ (الی قولہ) اما من حیث المواخذۃ فی الاخرۃ فھو عذر مسقط للاثم کما فی حقوقہ تعالی" اھ۔ (ج:2 ص395)
یعنی حقوق العباد میں وقوع فعل کے اعتبار سے بھول جانا عذر نہیں ہے لیکن عند اللہ گناہ نہ ہونے کے اعتبار سے حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد میں بھی بھول جانا عذر ہے.
واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
کتبہ: حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدام حسین قادری برکاتی فیضی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
صدر: میرانی دارالافتاء اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا
خادم: صدر العلوم پپرولی بازار گورکھ پور یوپی انڈیا
12شوال المکرم 1442ھ مطابق 25 مئی 2021ء
رابطہ نمبر:-7408476710