مرنے کے بعد روحیں کہاں رہتی ہیں؟
:---------------:
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کے مرنے کے بعد روحیں کہاں رہتی ہیں تفصیلی مدلل جواب عطا فرمائیں
المستفتی :- جنید احمد آسام
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کے مرنے کے بعد روحیں کہاں رہتی ہیں تفصیلی مدلل جواب عطا فرمائیں
المستفتی :- جنید احمد آسام
:-----------------------:
و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب
روحوں کے بارے میں عمومی خیالات عام طور پر اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں مکان میں رُوح کا ڈیرا ہے ،وہ مار دیتی ہے،فلاں جگہ ایک آدمی قتل ہوا تھا وہاں اس کی روح بھٹک رہی ہے،قتل ہونے والوں کی روحیں دنیا میں بھٹکتی رہتی ہیں،اس حویلی میں کافر روحوں کا بسیرا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بے سَروپا تَوَہُّمات ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلّق نہیں، شرح الصدور میں ہے: وفات کے بعد مؤمنین کی روحیں ”رِمیائیل“ نامی فرشتے کے حوالے کی جاتی ہیں، وہ مؤمنین کی روحوں کے خازِن ہیں۔ جبکہ کفّار کی روحوں پر مقرر فرشتے کا نام”دَومہ“ہے۔(شرح الصدور، ص237) روحوں کے مقامات کافروں کی روحیں مخصوص جگہوں پر قید ہوتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی روحوں کے مختلف مقامات بھی مُقَرّر ہیں اور انہیں اور مقامات پرجانے کی اجازت بھی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سیِّدُنا امام مالک علیہ رحمۃ اللہ الخالِق فرماتے ہیں:مؤمنوں کی اَرواح آزاد ہوتی ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔نبیّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمنین کی اَرواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں، جنّت میں جہاں چاہیں سیر کرتی ہیں۔ عرض کی گئی:اور کافروں کی روحیں؟ ارشاد فرمایا: سِجّین میں قید ہوتی ہیں۔ بہارِ شریعت میں ہے: مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف(یعنی زم زم شریف کے کنویں ) میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قِنْدیلوں میں اور بعض کی اعلیٰ عِلّیِّین میں مگر کہیں ہوں اپنے جسم سے اُن کو تعلّق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے کہ ایک طائر (پرندہ) پہلے قَفَس (پنجرے) میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔(بہارِ شریعت،ج1،ص101)
خبیث روحیں کافروں کی خبیث روحوں کے بھی مقام مقرّر ہیں وہ آزاد نہیں گھومتیں بلکہ بعض کی اُن کے مَرگھٹ (مردے جلانے کی جگہ) یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ(یعنی وادی) ہے ، بعض کی پہلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختِیار نہیں، کہ قید ہیں۔یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسُخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اس کا ماننا کفر ہے۔(بہارِ شریعت،ج1،ص103)
فتاوی رضویہ میں ہے
امام اجل عبداﷲبن مبارک وابوبکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری ومسلم حضرت عبدا ﷲ بن عمر وبن عاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے موقوفاً اور امام احمد مسند اورطبرانی معجم کبیر اور حاکم صحیح مستدرک اور ابونعیم حلیہ میں بسند صحیح حضور پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مرفوعاً راوی۔
وھذا لفظ ابن المبارک قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن، وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی السجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض یتفسح فیھا
(اور یہ ابن مبارک کے الفاظ ہیں، ت) بیشک دنیا کافر کی بہشت اور مسلمان کا قید خانہ ہے، جب مسلمان کی جان نکلتی ہے توا س کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص زندان میں تھا اب آزاد کردیا گیا تو زمین میں گشت کرنے اور بافراغت چلنے پھرنے لگا
فاذ امات المؤمنین یخلی بہ بسرح حیث شاء
جب مسلمان مرتا ہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے جائے۔
امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں،
انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں ، کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عجب الذنب کہتے ہیں وہ نہ جلتے ہیں نہ گلتے ہیں ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، انھیں پر روز قیامت ترکیب جسم ہوگی، عذاب وثواب روح وجسم دونوں کے لیے ہے۔ جو فقط روح کے لیے مانتے ہیں گمراہ ہیں، روح بھی باقی اور جسم کے اجزائے اصلی بھی باقی، اور جو خاک ہوگئے وہ بھی فنائے مطلق نہ ہوئے، بلکہ تفرق اتصال ہوا اور تغیر ہیأت۔ پھر استحالہ کیا ہے۔ حدیث میں روح وجسم دونوں کے معذب ہونے کی یہ مثال ارشاد فرمائی کہ ایک باغ ہے اس کے پھل کھانے کی ممانعت ہے۔ ایک لنجھا ہے کہ پاؤں نہیں رکھتا اور آنکھیں ہیں وہ اس باغ کے باہر پڑا ہوا ہے،پھلوں کو دیکھتا ہے مگر ان تک جا نہیں سکتا، اتنے میں ایک اندھا آیا اس لنجھے نے اس سے کہا: تو مجھے اپنی گردن پر بٹھا کر لے چل، میں تجھے رستہ بتاؤں گا، اس باغ کا میوہ ہم تم دونوں کھائیں گے، یوں وہ اندھا اس لنجھے کو لے گیا اور میوے کھائے دونوں میں کون سزا کا مستحق ہے؟ دونوں ہی مستحق ہیں، اندھا اسے نہ لے جاتا تو وہ نہ جاسکتا، اور لنجھا اسے نہ بتاتا تووہ نہ دیکھ سکتا، وہ لنجھا روح ہے کہ ادراک رکھتی ہے اور افعال جو ارح نہیں کرسکتی ۔ا ور وہ اندھا بدن ہے کہ افعال کرسکتا ہے اورادراک نہیں رکھتا۔ دونوں کے اجتماع سے معصیت ہوئی دونوں ہی مستحقِ سزا ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
روح کا مقام بعد موت حسب مراتب مختلف ہے۔ مسلمانوں میں بعض کی روحیں قبر پر رہتی ہیں اور بعض کی چاہِ زمزم میں اور بعض کی آسمان وزمین کے درمیان، اور بعض آسمانِ اول دوم ہفتم تک،ا ور بعض اعلٰی علیین میں، اور بعض سبز پرندوں کی شکلیں میں زیر عرش نور کی قندیلوں میں، کفار میں بعض کی روحیں چاہ وادی برہوت میں، بعض کی زمین دوم سوم ہفتم تک، بعض سجین میں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
کبھی پڑتا ہے کبھی نہیں، دونوں قسم کے خواب شرح الصدور میں مذکور ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
روح میرے رب کے حکم سے ایک شے ہے اور تمھیں علم نہ دیا گیا مگر تھوڑا، روح کے ادر اکات علم وسمع و بصر باقی رہتے، بلکہ پہلے سے بھی زائد ہوجاتے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
قبر پر آنے والے کو میّت دیکھتا ہے۔ ا س کی بات سنتاہے۔ اگر زندگی میں پہچانتا تھا اب بھی پہچانتا ہے اگر اس کا عزیز یا دوست ہے تو اس کے آنے سے انس حاصل کرتا ہے: (فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفح 658)
ابن ابی الدنیا وبیہقی سعید بن مسیب رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی حضرت سلمان فارسی وعبداللہ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا، کہا کیا زندے اور مردے بھی ملتے ہیں؟ کہا:
نعم اما المومنون فان ارواحھم فی الجنۃ وھی تذھب حیث شاءت۔،
ہاں مسلمان کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں انھیں اختیار ہوتاہے جہاں چاہیں جائیں۔
ابن المبارک کتاب الزہد وابوبکر ابن ابی الدنیا وابن مندہ سلمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی :
قال ان ارواح المؤمنین فی برزخ من الارض تذھب حیث شاءت ونفس الکافر فی سجین
بیشک مسلمانوں کی روحیں زمین کے برزخ میں ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں، اور کافر کی روح سجین میں مقید ہے۔
ابن ابی الدنیا مالک بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال بلغنی ان ارواح المومنین مرسلۃ تذھب حیث شاءت۔،
فرمایا: مجھے حدیث پہنچی ہے کہ مسلمانوں کی روحیں آزادہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔
اما م جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں:
رجح ابن البران ارواح الشھداء فی الجنۃ وارواح غیرھم علی افنیۃ القبور فتسرح حیث شاءت
امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا: راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ا ور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں،
علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں:
ان الروح اذا انخلعت من ھذا الھیکل وانفکت من القیود بالموت تحول الی حیث شاءت
بیشک جب روح اس قالب سے جدا اور موت کے باعث قیدوں سے رہاہوتی ہے جہاں چاہتی ہے جولاں کرتی ہے (فتاویٰ رضویہ 9 جلد صفح 652)
فرعونیوں کی روح کے بارے میں امام اہلسنت فرماتے ہیں
ان ارواح اٰل فرعون فی اجوان طیر سود یعرضون علی النار کل یوم مرتین تغدو و تروح الی النار فیقال یا اٰل فرعون ھذہ مأوٰکم حتی تقوم الساعۃ
فرعونیوں کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹ میں ڈال کر انھیں روزانہ دوبار نار پر پیش کیا جاتا ہے، صبح وشام کو نار کی طرف جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے اے فرعون والو! یہ تمھارا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ قیامت قائم ہو
فرعون اور فرعونیوں کو ڈوبے ہوئے کتی ہزار برس ہوئے ہر روز صبح وشام دو وقت اگ پر پیش کیے جاتے ہیں جہنم جھنکا کر ان سے کہا جاتا ہے یہ تمھارا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ قیامت آئے۔ اور ایك انھیں پرکیا موقوف ہر مومن و کافر کو یونہی صبح وشام جنت ونار دکھاتے اور یہی کلام سناتے ہیں صحیح بخاری صحیح مسلم وموطائے امام مالك و جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذامات احدکم عرض علیہ مقعدہ، بالغداۃ والعشی، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ وان کان من اھل النار فمن اھل النار یقال لہ ھذا مقعدك حتی یبعثك اﷲ الی یوم القیامۃ
جب تم میں سے کوئی مرتا ہے اس پر اس کا ٹھکانا صبح وشام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت سے تھا تو اہل جنت کا مقام اور اہل نار سے تھا تو اہل نار کا مقام دکھا یا جاتا ہے اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ خدا تجھ کو روز قیامت اس کی طرف بھیجے۔
یو نہی اموات کی باہم ملاقات، آپس کی گفتگو ، قبر کا ان سے باتیں کرنا، ان کی حد نگاہ تك کشادہ ہونا احیاء کے اعمال انھیں سنائے جانا، اپنے حسنات وسیئات اور گاؤماہی کا تماشا دیکھنا وغیرہ وغیرہ امور کثیر جن کی نظر صدر مفصد دوم میں اشارہ گزرا، جن کے بیان میں دس بیس نہیں صدہا حدیثیں وارد ہوئیں ان مطالب پر شاہد ہیں جس طریقے سے ہو ان چیزوں اور آوازوں کو دیکھتے سنتے ہیں اور قیامت تك جس کے گلنے خاك میں ملنے کے بعد بھی دیکھیں سنیں گے، یونہی زائروں قبروں کے سامنے گزرنے والوں اور ان کے کلام کو۔ طرفہ یہ کہ مولوی اسحاق صاحب نے بھی جواب وسوال ١٩ میں تسلیم کیا مردے زندوں کا سلام سنتے ہیں۔ حضرت! جن کانوں سے سلام سنتے ہیں انہی سے کلام ۔ یہ تو ہماری طرف سے کلام تھا، اب جانب منکرین نظر کیجئے ان کا انکار بھی قطعا عام ہے، صرف آلاتِ جسمانیہ سے خاص نہیں، کاش وہ ایمان لے آئیں کہ اموات اصوات کا ادراك تام کرتے ہیں مگر نہ گوشِ بدن (فتاویٰ رضویہ 9 جلد صفح 874)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
و علیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب
روحوں کے بارے میں عمومی خیالات عام طور پر اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں مکان میں رُوح کا ڈیرا ہے ،وہ مار دیتی ہے،فلاں جگہ ایک آدمی قتل ہوا تھا وہاں اس کی روح بھٹک رہی ہے،قتل ہونے والوں کی روحیں دنیا میں بھٹکتی رہتی ہیں،اس حویلی میں کافر روحوں کا بسیرا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بے سَروپا تَوَہُّمات ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلّق نہیں، شرح الصدور میں ہے: وفات کے بعد مؤمنین کی روحیں ”رِمیائیل“ نامی فرشتے کے حوالے کی جاتی ہیں، وہ مؤمنین کی روحوں کے خازِن ہیں۔ جبکہ کفّار کی روحوں پر مقرر فرشتے کا نام”دَومہ“ہے۔(شرح الصدور، ص237) روحوں کے مقامات کافروں کی روحیں مخصوص جگہوں پر قید ہوتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی روحوں کے مختلف مقامات بھی مُقَرّر ہیں اور انہیں اور مقامات پرجانے کی اجازت بھی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سیِّدُنا امام مالک علیہ رحمۃ اللہ الخالِق فرماتے ہیں:مؤمنوں کی اَرواح آزاد ہوتی ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔نبیّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمنین کی اَرواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں، جنّت میں جہاں چاہیں سیر کرتی ہیں۔ عرض کی گئی:اور کافروں کی روحیں؟ ارشاد فرمایا: سِجّین میں قید ہوتی ہیں۔ بہارِ شریعت میں ہے: مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف(یعنی زم زم شریف کے کنویں ) میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قِنْدیلوں میں اور بعض کی اعلیٰ عِلّیِّین میں مگر کہیں ہوں اپنے جسم سے اُن کو تعلّق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے کہ ایک طائر (پرندہ) پہلے قَفَس (پنجرے) میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔(بہارِ شریعت،ج1،ص101)
خبیث روحیں کافروں کی خبیث روحوں کے بھی مقام مقرّر ہیں وہ آزاد نہیں گھومتیں بلکہ بعض کی اُن کے مَرگھٹ (مردے جلانے کی جگہ) یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ(یعنی وادی) ہے ، بعض کی پہلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختِیار نہیں، کہ قید ہیں۔یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسُخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اس کا ماننا کفر ہے۔(بہارِ شریعت،ج1،ص103)
فتاوی رضویہ میں ہے
امام اجل عبداﷲبن مبارک وابوبکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری ومسلم حضرت عبدا ﷲ بن عمر وبن عاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے موقوفاً اور امام احمد مسند اورطبرانی معجم کبیر اور حاکم صحیح مستدرک اور ابونعیم حلیہ میں بسند صحیح حضور پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مرفوعاً راوی۔
وھذا لفظ ابن المبارک قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن، وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی السجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض یتفسح فیھا
(اور یہ ابن مبارک کے الفاظ ہیں، ت) بیشک دنیا کافر کی بہشت اور مسلمان کا قید خانہ ہے، جب مسلمان کی جان نکلتی ہے توا س کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص زندان میں تھا اب آزاد کردیا گیا تو زمین میں گشت کرنے اور بافراغت چلنے پھرنے لگا
فاذ امات المؤمنین یخلی بہ بسرح حیث شاء
جب مسلمان مرتا ہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے جائے۔
امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں،
انسان کبھی خاک نہیں ہوتا بدن خاک ہوجاتا ہے، اور وہ بھی کُل نہیں ، کچھ اجزائے اصلیہ دقیقہ جن کو عجب الذنب کہتے ہیں وہ نہ جلتے ہیں نہ گلتے ہیں ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، انھیں پر روز قیامت ترکیب جسم ہوگی، عذاب وثواب روح وجسم دونوں کے لیے ہے۔ جو فقط روح کے لیے مانتے ہیں گمراہ ہیں، روح بھی باقی اور جسم کے اجزائے اصلی بھی باقی، اور جو خاک ہوگئے وہ بھی فنائے مطلق نہ ہوئے، بلکہ تفرق اتصال ہوا اور تغیر ہیأت۔ پھر استحالہ کیا ہے۔ حدیث میں روح وجسم دونوں کے معذب ہونے کی یہ مثال ارشاد فرمائی کہ ایک باغ ہے اس کے پھل کھانے کی ممانعت ہے۔ ایک لنجھا ہے کہ پاؤں نہیں رکھتا اور آنکھیں ہیں وہ اس باغ کے باہر پڑا ہوا ہے،پھلوں کو دیکھتا ہے مگر ان تک جا نہیں سکتا، اتنے میں ایک اندھا آیا اس لنجھے نے اس سے کہا: تو مجھے اپنی گردن پر بٹھا کر لے چل، میں تجھے رستہ بتاؤں گا، اس باغ کا میوہ ہم تم دونوں کھائیں گے، یوں وہ اندھا اس لنجھے کو لے گیا اور میوے کھائے دونوں میں کون سزا کا مستحق ہے؟ دونوں ہی مستحق ہیں، اندھا اسے نہ لے جاتا تو وہ نہ جاسکتا، اور لنجھا اسے نہ بتاتا تووہ نہ دیکھ سکتا، وہ لنجھا روح ہے کہ ادراک رکھتی ہے اور افعال جو ارح نہیں کرسکتی ۔ا ور وہ اندھا بدن ہے کہ افعال کرسکتا ہے اورادراک نہیں رکھتا۔ دونوں کے اجتماع سے معصیت ہوئی دونوں ہی مستحقِ سزا ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
روح کا مقام بعد موت حسب مراتب مختلف ہے۔ مسلمانوں میں بعض کی روحیں قبر پر رہتی ہیں اور بعض کی چاہِ زمزم میں اور بعض کی آسمان وزمین کے درمیان، اور بعض آسمانِ اول دوم ہفتم تک،ا ور بعض اعلٰی علیین میں، اور بعض سبز پرندوں کی شکلیں میں زیر عرش نور کی قندیلوں میں، کفار میں بعض کی روحیں چاہ وادی برہوت میں، بعض کی زمین دوم سوم ہفتم تک، بعض سجین میں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
کبھی پڑتا ہے کبھی نہیں، دونوں قسم کے خواب شرح الصدور میں مذکور ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
روح میرے رب کے حکم سے ایک شے ہے اور تمھیں علم نہ دیا گیا مگر تھوڑا، روح کے ادر اکات علم وسمع و بصر باقی رہتے، بلکہ پہلے سے بھی زائد ہوجاتے ہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم
قبر پر آنے والے کو میّت دیکھتا ہے۔ ا س کی بات سنتاہے۔ اگر زندگی میں پہچانتا تھا اب بھی پہچانتا ہے اگر اس کا عزیز یا دوست ہے تو اس کے آنے سے انس حاصل کرتا ہے: (فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفح 658)
ابن ابی الدنیا وبیہقی سعید بن مسیب رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی حضرت سلمان فارسی وعبداللہ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہما باہم ملے، ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا، کہا کیا زندے اور مردے بھی ملتے ہیں؟ کہا:
نعم اما المومنون فان ارواحھم فی الجنۃ وھی تذھب حیث شاءت۔،
ہاں مسلمان کی روحیں تو جنت میں ہوتی ہیں انھیں اختیار ہوتاہے جہاں چاہیں جائیں۔
ابن المبارک کتاب الزہد وابوبکر ابن ابی الدنیا وابن مندہ سلمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی :
قال ان ارواح المؤمنین فی برزخ من الارض تذھب حیث شاءت ونفس الکافر فی سجین
بیشک مسلمانوں کی روحیں زمین کے برزخ میں ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں، اور کافر کی روح سجین میں مقید ہے۔
ابن ابی الدنیا مالک بن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال بلغنی ان ارواح المومنین مرسلۃ تذھب حیث شاءت۔،
فرمایا: مجھے حدیث پہنچی ہے کہ مسلمانوں کی روحیں آزادہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔
اما م جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں:
رجح ابن البران ارواح الشھداء فی الجنۃ وارواح غیرھم علی افنیۃ القبور فتسرح حیث شاءت
امام ابو عمر ابن عبدالبر نے فرمایا: راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ا ور مسلمانوں کی فنائے قبور پر، جہاں چاہیں آتی جاتی ہیں،
علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں:
ان الروح اذا انخلعت من ھذا الھیکل وانفکت من القیود بالموت تحول الی حیث شاءت
بیشک جب روح اس قالب سے جدا اور موت کے باعث قیدوں سے رہاہوتی ہے جہاں چاہتی ہے جولاں کرتی ہے (فتاویٰ رضویہ 9 جلد صفح 652)
فرعونیوں کی روح کے بارے میں امام اہلسنت فرماتے ہیں
ان ارواح اٰل فرعون فی اجوان طیر سود یعرضون علی النار کل یوم مرتین تغدو و تروح الی النار فیقال یا اٰل فرعون ھذہ مأوٰکم حتی تقوم الساعۃ
فرعونیوں کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹ میں ڈال کر انھیں روزانہ دوبار نار پر پیش کیا جاتا ہے، صبح وشام کو نار کی طرف جاتی ہیں تو کہا جاتا ہے اے فرعون والو! یہ تمھارا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ قیامت قائم ہو
فرعون اور فرعونیوں کو ڈوبے ہوئے کتی ہزار برس ہوئے ہر روز صبح وشام دو وقت اگ پر پیش کیے جاتے ہیں جہنم جھنکا کر ان سے کہا جاتا ہے یہ تمھارا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ قیامت آئے۔ اور ایك انھیں پرکیا موقوف ہر مومن و کافر کو یونہی صبح وشام جنت ونار دکھاتے اور یہی کلام سناتے ہیں صحیح بخاری صحیح مسلم وموطائے امام مالك و جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذامات احدکم عرض علیہ مقعدہ، بالغداۃ والعشی، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ وان کان من اھل النار فمن اھل النار یقال لہ ھذا مقعدك حتی یبعثك اﷲ الی یوم القیامۃ
جب تم میں سے کوئی مرتا ہے اس پر اس کا ٹھکانا صبح وشام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت سے تھا تو اہل جنت کا مقام اور اہل نار سے تھا تو اہل نار کا مقام دکھا یا جاتا ہے اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تك کہ خدا تجھ کو روز قیامت اس کی طرف بھیجے۔
یو نہی اموات کی باہم ملاقات، آپس کی گفتگو ، قبر کا ان سے باتیں کرنا، ان کی حد نگاہ تك کشادہ ہونا احیاء کے اعمال انھیں سنائے جانا، اپنے حسنات وسیئات اور گاؤماہی کا تماشا دیکھنا وغیرہ وغیرہ امور کثیر جن کی نظر صدر مفصد دوم میں اشارہ گزرا، جن کے بیان میں دس بیس نہیں صدہا حدیثیں وارد ہوئیں ان مطالب پر شاہد ہیں جس طریقے سے ہو ان چیزوں اور آوازوں کو دیکھتے سنتے ہیں اور قیامت تك جس کے گلنے خاك میں ملنے کے بعد بھی دیکھیں سنیں گے، یونہی زائروں قبروں کے سامنے گزرنے والوں اور ان کے کلام کو۔ طرفہ یہ کہ مولوی اسحاق صاحب نے بھی جواب وسوال ١٩ میں تسلیم کیا مردے زندوں کا سلام سنتے ہیں۔ حضرت! جن کانوں سے سلام سنتے ہیں انہی سے کلام ۔ یہ تو ہماری طرف سے کلام تھا، اب جانب منکرین نظر کیجئے ان کا انکار بھی قطعا عام ہے، صرف آلاتِ جسمانیہ سے خاص نہیں، کاش وہ ایمان لے آئیں کہ اموات اصوات کا ادراك تام کرتے ہیں مگر نہ گوشِ بدن (فتاویٰ رضویہ 9 جلد صفح 874)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوا نی نینیتال