لا موجود الا اللہ یہ کس کا کلمہ ہے؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام کا اور صحابہ کرام و تابعین عظام اور تمام امت مسلمہ کا کلمہ لاالہ الااللہ محمد الرسول ہے تو پھر لا موجود الا اللہ یہ کس کا کلمہ ہے۔ جب کہ دونوں کلمے کے معنیٰ میں تضاد واقع ہے
سائل۔ محمد یوسف رضا اشرفی چھوٹی مہولی دربھنگہ بہار۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین ۔
الجواب بعونه تعالى عز وجل.
صورت مستفسره میں
معنى الوجود عند الصوفية:
لا موجود إلا الله۔
پہلے اعراب دیکھ لیا جائے باعتبار تركيب
لا إله إلا الله إعرابها واضح، لا نافية وإله اسمها .. الفتح في محل نصب اسم لا، وخبرها محذوف تقديره حق على الأصح، لا إله حق.
وإلا الله: إلا حرف استثناء، والله بدل من حق، والبدل ليس له محل في الإعراب، والأول مرفوع، وهذا مرفوع مثله. هذا هو إعرابها على الصحيح.۔۔ باعتبار تركيب بھی جملہ صحیح ہے ۔۔
كوئی تضاد نہیں ہے ۔۔
مولانا رومؒ، حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے مگر آج بھی ان کی تعلیمات تروتازہ ہے بلکہ ہر آنے والے دور میں گزرے ہوئے زمانے سے زیادہ ان پر کتب، تحقیقی مضامین لکھے جار ہے ہیں سمینار اور کانفرنسز منعقد ہو رہی ہیں- ان صوفیاء نے کتابی صورت میں بہت سا ادبی ذخیرہ چھوڑا جو ہر دور میں لوگوں کے لئے مکمل رہنمائی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے-
مولانا روم ؒکی مشہور زمانہ تصانیف مثنوی معنوی، فیہ مافیہ، دیوان شمس اور مجالس سبعہ ہیں، حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے 140 کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ایک آپ کی مادری زبان پنجابی میں ’’ابیات باھُو‘‘ کے نام سے موسوم ہے جبکہ139 فارسی زبان میں ہیں اور حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ وبرکاتہ نے اردو نثر میں ایک علم الاقتصاد، اردو شاعری میں چار، فارسی میں سات اور انگریزی میں دو کتب تصنیف فرمائی ہیں-
ان کا لٹریچر کسی ایک خطے کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ ہر دور میں ہر طرح کے لوگوں کو مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے اور کرتا رہے گا ایسے لٹریچر ہی کو عالمگیر کہتے ہیں اِن صوفیاء نے قرآن کریم و سنت نبوی(ﷺ) کو اپنی تعلیمات میں پرویا ہے یہ قرآن کا فیض ہے کیونکہ جس طرح قرآن تروتازہ ہے اُس کے باطن سے فیض یاب ہونے والی ہر چیز اُسی طرح ترو تازہ رہتی ہے- جو لوگ ان کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہیں وہ دوسروں کے لیے بھی رحمت کا سبب بنتے ہیں-
تینوں صوفیاء کا تعلق فقہ حنفی ، عقیدہ ماتریدیہ ، سلسلہ قادریہ سے ہے اور اول الذکر دونوں حضرت شیخ الاکبر محی الدین ابن العربی(قدس اللہ سرہ) کے منہج پہ ہیں ، حضرت علامہ اقبال کا بھی فکری کسبِ فیض حضرت شیخ الاکبر ابن العربی سے ثابت ہے -
تعلیمات مولانا رومؒ ، حضرت سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اورعلامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت باھو رحمت اللہ علیہ نے، فرما یا
ھّو الواحد ھّو المقصود لا موجود الّاھوُ۔۔
(دیوان باھُو، غزل نمبر :1)
عقيدة وحــــدة الـوجــــود
قال ملا علي القاري بعد ذلك في كتابه “مرتبة الوجود ومنزلة الشهود”(صـ20،21)
وَقد قَالَت الصُّوفِيَّة: إِن المريد فِي مقَام الْمَزِيد يَنْبَغِي أَن يَقُول فِي بَاطِنه عِنْد كلمة التَّوْحِيد أَولاً: لَا معبود إِلَّا الله، وَهَذِه شَرِيعَة، ثمَّ يَقُول: لَا مَوْجُود إِلَّا الله وَهَذِه طَريقَة، ثمَّ لَا مشهود إِلَّا الله وَهَذِه حَقِيقَة۔
قال جلال الدين الرومي: “لا معبود إلا الله عَقدُ العامة، أما عقد الخاصة فيَبين بقولهم: لا موجودَ إلا الله۔۔۔
( كتاب: “فيه ما فيه” ص 99)
مذکورہ بالا تفصیلات سے سے واضح ہوا کہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باالمقابل کلمہ نہیں بلکہ صوفیہ کے نزدیک مکمل کلمے کا ایک جز ہے ۔۔۔
والله ورسوله أعلم بالصواب.
كتبه عبده المذنب محمد مجيب القادري لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.