العلماء ورثت الانبیاء، اس زمرے میں کون عالم شامل ہیں؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے میرا ایک سوال ہے یہ جو حدیث پاک ہے العلماء ورثت الانبیاء اس زمرے میں کون عالم شامل ہیں پوری وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل محمد اسرائیل۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین ۔۔۔۔
جواباعرض ہے کہ ۔۔۔
سنن الترمذی باب ما جاء في فضل الفقه على العبادۃ۔باب: عبادت پر علم و فقہ کی فضیلت کا بیان حدیث نمبر: (2682)
حدثنا محمود بن خداش البغدادي حدثنا محمد بن يزيد الواسطي حدثنا عاصم بن رجاء بن حيوة عن قيس بن كثير قال:
قدم رجل من المدينة على ابي الدرداء وهو بدمشق ، فقال: ما اقدمك يا اخي؟ فقال: حديث بلغني انك تحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اما جئت لحاجة؟ قال: لا قال: اما قدمت لتجارة؟ قال: لا قال: ما جئت إلا في طلب هذا الحديث؟ قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من سلك طريقا يبتغي فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضاء لطالب العلم وإن العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الارض حتى الحيتان في الماء وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر الكواكب إن العلماء ورثة الانبياء إن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما إنما ورثوا العلم فمن اخذ به اخذ بحظ وافر " ،
قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء رضی الله عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی الله عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداء نے کہا: (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا“ ۱؎۔
قال ابو عيسى: ولا نعرف هذا الحديث إلا من حديث عاصم بن رجاء بن حيوة وليس هو عندي بمتصل هكذا ، حدثنا محمود بن خداش هذا الحديث وإنما يروى هذا الحديث عن عاصم بن رجاء بن حيوة عن الوليد بن جميل عن كثير بن قيس عن ابي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم وهذا اصح من حديث محمود بن خداش ، وراي محمد بن إسماعيل هذا اصح.
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے، ۲- یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند «داود بن جميل عن كثير بن قيس عن أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العلم ۱ (۳۶۴۱)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۷ (۲۲۳) (تحفة الأشراف : ۱۰۹۵۸)، وسنن الدارمی/المقدمة ۳۲ (۳۵۴) (صحیح) (سند میں کثیر بن قیس، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: زہد وکیع رقم ۵۱۹)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (223)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علماء و محدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو، علم دین حاصل کرنے والے کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔
اور سنن ابی داود میں اس طرح ہے :
حدثنا مسدد بن مسرهد حدثنا عبد الله بن داود سمعت عاصم بن رجاء بن حيوة يحدث عن داود بن جميل عن كثير بن قيس قال: " كنت جالسا مع ابي الدرداء في مسجد دمشق فجاءه رجل فقال: يا ابا الدرداء إني جئتك من مدينة الرسول صلى الله عليه وسلم لحديث بلغني انك تحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ما جئت لحاجة قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا من طرق الجنة وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم وإن العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الارض والحيتان في جوف الماء وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب وإن العلماء ورثة الانبياء وإن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ورثوا العلم فمن اخذه اخذ بحظ وافر ".
(سنن ابی داود ، حدیث نمبر: 3641 )
کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابو الدرداء! میں آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے اس حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے متعلق مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ۱۹ (۲۶۸۲)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۷ (۲۲۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۵۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۹۶)، سنن الدارمی/المقدمة ۳۲ (۳۵۴)
(متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود اور کثیر دونوں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: زہد وکیع نمبر: ۵۱۹ بتحقیق الفریوائی)
اور حافظ زبیر علی زئی انوار الصحیٖفہ میں لکھتے ہیں:
((اسناده ضعيف داود بن جميل و شيخه كثير بن قيس ضعيفان (تق--) وحديث مسلم 2699
اور علامہ شعیب الارنؤط مسند احمد کی تعلیق میں لکھتے ہیں :
حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، وقيس بن كثير، وقيل: كثير بن قيس -وهو قول الأكثرين- ضعيف، ثم إن عاصم بن رجاء لم يسمعه من قيس، فهو منقطع، بينهما داود بن جميل كما في الحديث التالي، وهو ضعيف أيضاً.
یعنی اس سند سے تو یہ حدیث ضعیف ہے ،لیکن دیگر شواہد و متابعات کی بنا پر یہ ’’ حسن لغیرہ ‘‘ بن جاتی ہے
وقد أورد البخاري بعضه في "صحيحه" في كتاب العلم ضمن عنوان باب العلم قبل القول والعمل، فقال: "وإن العلماء هم ورثة الأنبياء، وَرَّثوا العلم، من أخذه أخذ بحظ وافر، ومن سلك طريقاً يطلب به علماً سهل الله له به طريقاً إلى الجنة". قال الحافظ في "الفتح" 1/160. وهو طرف من حديث أخرجه أبو داود، والترمذي، وابن حبان، والحاكم مصححاً من حديث أبي الدرداء، وحسنه حمزة الكناني، وضعفه غيرهم بالاضطراب في سنده، لكن له شواهد يتقوى بها، ولم يفصح المصنف بكونه حديثاً فلهذا لا يعد في تعاليقه، لكن إيراده له في الترجمة يُشعر بأن له أصلاً.
اور لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب العلم میں باب العلم قبل القول کے ضمن میں لکھا ہے : علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں ،جنہوں نے علم کا ورثہ حاصل کیا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کے تحت حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں :
العلماء هم ورثة الأنبياء ‘‘ ایک حدیث کا ٹکڑا ہے ،جسے ترمذی ،ابو داود ،اور ابن حبان نے ابو درداء سے روایت کیا ،اور اس حدیث کو حمزہ الکتانی نے اسے حسن کہا ہے ،جبکہ دیگر کئی علماء نے اسے ضعیف کہا ہے ،
حافظ ابن حجر کہتے ہیں :اس کے کئی شواہد ہیں ،جن کی بناء پر اسے تقویت مل رہی ہے،اور امام بخاری نے گو واضح لفظوں میں یہاں اسے حدیث نہیں کہا ،اسلئے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بخاری کی معلقات میں سے ہے ،تاہم ترجمۃ الباب میں لانے سے اتنا تو ضرور پتا چلتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے
مذکورہ بالا حدیث کے مناقب و فضائل میں اہل سنت والجماعت کے قیامت تک کے علماء دین داخل ہیں ۔۔
والله ورسوله أعلم بالصواب۔
كتبه عبده المذنب محمد مجيب القادري لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.