Type Here to Get Search Results !

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں صدیق اکبر ہوں ؟

 کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں صدیق اکبر ہوں ؟

السلام علی من اتبع الھدیٰ

آج کل بعض شیعہ و رافضی ایک روایت بہت زیادہ سناتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں صدیق اکبر ہوں،اور کہتے ہیں کہ صدیق اکبر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس تحریر میں ہم اس روایت کا تحقیقی جائزہ لیں گے کہ آیا وہ روایت درست بھی ہے یا نہیں ؟

یہ روایت سنن ابن ماجہ میں موجود ہے اس کی سند کچھ یوں ہے:

”حدثنا محمد بن اسماعیل الرازی ثنا عبید اللہ بن موسیٰ انبانا العلا بن صالح عن المنھال عن عباد بن عبداللہ قال قال علی رضی اللہ عنہ “

متن کچھ یوں ہے:

عباد بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کے رسول کا بھاٸی ہوں،اور میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد یہ بات سواۓ جھوٹے کے کوئی اور نہ کرۓ گا اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی“۔

(سنن ابن ماجہ،روایت نمبر 120)

اس روایت کو سنا کر شیعہ و روافض منگھڑت تاویلات کرتے ہیں۔

اب ہم اس روایت کی سند پر کلام کریں گے آیا یہ روایت صحیح ہے یا نہیں ؟

اس میں دو علتیں ہیں۔

پہلا اس روایت کا راوی عبید اللہ بن موسیٰ جو کہ بدعتی شیعہ ہے اور اس پر جھوٹی روایات نقل کرنے کی جرح بھی ہے۔

امام ذھبی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے ترجمے میں فرماتے ہیں۔

”اپنی ذات کے اعتبار سے ثقہ ہے مگر شیعہ ہے اور جل جانے والا شخص ہے،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اختلاط کا شکار ہو جاتا تھا اور اس نے غلط اور جھوٹی روایات نقل کی ہیں“۔(میزان الاعتدال،جلد 5،صحفہ نمبر 51)

پھر امام ذھبی رحمہ اللہ اپنی الکاشف میں اس پر آخری حکم ثقہ کا لگانے کے ساتھ ساتھ لکھتے ہیں کہ ”اس میں تشیع اور بدعت ہے“۔ (الکاشف،جلد 1،صحفہ نمبر 687)

اور اہلسنت کے اصولِ حدیث کے مطابق ایسا ثقہ شیعہ راوی جو بدعتی ہو اس کی ہر وہ روایت ناقابل قبول ہے جو اس کے مذہب کو تقویت دیتی ہو۔

اس کی دوسری علت اس روایت کا مرکزی راوی عباد بن عبداللہ جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کر رہا ہے اور یہ روایت اسی نے گھڑ کر حضرت علی کی طرف منسوب کی ہے۔

اس کا ترجمہ ملاحظہ فرماٸیں

امام ذھبی رحمہ اللہ اس کے ترجمے میں یہی مذکورہ روایت نقل کر کے فرماتے ہیں: ”یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کی گٸ ہے،علی بن مدینی کہتے ہیں یہ راوی ضعیف ہے“۔ (میزان الاعتدال،جلد 4،صحفہ نمبر 49)

امام ابن حجر رحمہ اللہ اس پر جروحات نقل کرتے ہیں کہ:

”امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں اس میں نظر ہے(یہ امام بخاری کی سخت ترین جرح ہے)،ابن سعد فرماتے ہیں اس راوی کے پاس قصے کہانیاں ہیں(یعنی اس کی روایات کی کوٸی اہمیت نہیں) علی بن مدینی فرماتے ہیں یہ حدیث میں ضعیف ہے،ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے اس کی اس مذکورہ روایت کے بارے میں فرمایا کہ یہ منکر ہے،اور ابن حزم فرماتے ہیں یہ راوی مجہول ہے“۔

(تھذیب التھذیب،جلد 2،صحفہ نمبر 279)

امام ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”مذکورہ روایت موضوع ہے اور اس کو گھڑنے کا الزام عباد پر ہے،علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ حدیث میں ضعیف ہے،اور ازدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں اس نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن کی اتباع نہیں کی گئ،اور امام ابوبکر الاثرم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے اس روایت کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا اس کو مِٹا دو یہ حدیث منکر ہے“۔(کتاب الموضوعات،جلد 2،صحفہ نمبر 341)

امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ بھی امام الاثرم کا یہی قول نقل کرتے ہیں کہ:

”امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے اس روایت کہ حضرت علی رضی اللہ  عنہ نے فرمایا میں صدیق اکبر ہوں کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا اسے مِٹا دو یہ حدیث منکر ہے“۔(المنتخب من العلل للخلال،صحفہ نمبر 204)


امام برھان الدین حلبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عباد پر اوپر بیان کردہ جروحات نقل کیں لکھتے ہیں:

”ابن جوزی رحمتہ اللہ تنے اس کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں بیان کردہ حدیث کا تعاقب کیا اور فرمایا کہ یہ موضوع ہے اور اس کو عباد نے گھڑا ہے،علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ ضعیف راوی ہے،ازدی کہتے ہیں اس نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن کی اتباع نہیں کی گئ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اسے مِٹا دو میرے نزدیک یہ منکر ہے“۔(الکشف الحثیث،صحفہ نمبر 144)

دورِ حاضر میں لکھی گٸ ایک کتاب جس میں ضعیف و موضوع روایات کو جمع کیا گیا ہے اس میں بھی ان روایات کو نقل کیا گیا ہے۔

(موسوعة الاحادیث والاثار الضعیفة والموضوعة،جلد 12،صحفہ نمبر 137،138)

اس سب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ موضوع و منگھڑت ہے،لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ البانی و امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔

تو بیان کرتا چلوں کہ البانی ہمارے نزدیک حجت نہیں لیکن اس نے بھی اس روایت کو صحیح نہیں بلکہ ”باطل“ کہا ہے۔

ابن ماجہ کی تخریج کرتے ہوۓ اپنے جُز ”ضعیف ابن ماجہ“ میں اس روایت کے بارے میں لکھتا ہے کہ یہ ”باطل“ ہے۔(ضعیف ابن ماجہ بلتحقیق البانی،صحفہ نمبر 14)

رہی بات امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی تو امام حاکم روایات پر حکم لگانے میں مستاہل ہیں اگر ان کا ایک قول جمہور کے خلاف ہو تو کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے ؟

یہی حال امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی عباد کی توثیق کرنے کا ہے وہ بھی راویوں کی توثیق کرنے میں مستاہل ہیں اس لۓ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ و امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا راوی کو ثقہ یا روایت کو صحیح کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

الحَمْدُ ِلله ان تمام دلائل سے ہم نے بفضل باری تعالیٰ یہ ثابت کیا ہے کہ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے بلکہ ان کی طرف گھڑ کر منسوب کیا گیا ہے۔

بعض لوگ یہ کہیں گے کہ یہ روایت فضائل میں قبول کی جا سکتی ہے لیکن یاد رہے موضوع و منگھڑت روایات فضائل میں کبھی قابل قبول نہیں ہوتیں۔

دُعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سُننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔(آمین)

تحقیق ازقلم:مناظر اسلام محمد ذوالقرنین الحنفی الماتریدی البریلوی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area