Type Here to Get Search Results !

کیا باپ بیٹے کی وفات کے بعد اپنی بہو سے نکاح کر سکتا ہے؟

 (سوال نمبر 4069)
کیا باپ بیٹے کی وفات کے بعد اپنی بہو سے نکاح کر سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ  
سسر اپنے بیٹے کی زوجہ سے شادی کر سکتا ہے جبکہ بیٹا فوت ہو چکا ہے ۔اور بیوہ اپنے سسر کی محرم بھی نہیں ۔
سائل:- محمد عبداللہ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
بہو اپنے سسر کے لیے حرمت مصاہرت کی وجہ سے دائما محرم ہوگی کبھی بھی بہو کے ساتھ سسر کا نکاح جائز نہیں ہے دونوں کا رشتہ آپس میں باپ بیٹی کی طرح یے ۔
واضح رہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد سسر کا بہو سے نکاح کسی صورت جائز نہیں ہے اور اسی طرح بیوی کے انتقال کے بعد داماد کا ساس سے نکاح بھی ناجائز ہے۔
الفتاوى للسغدي میں 
 الحرمة المؤبدة بالسبب، وأما السبب فهو على عشرة أوجه وهي  الرضاع والصهرية وأما الصهر فهم أربعة أصناف: أحدهم: أبو الزوج والجدود من قبل أبويه وإن علوا، يحرمون على المرأة وتحرم هي عليهم، دخل بها أو لم يدخل بها؛ لقوله تعالى: {وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم}. والثاني: أم المرأة وجداتها من قبل أبويها وإن علون، يحرمن على الرجل ويحرم هو عليهن دخل بها أو لم يدخل؛ لقوله تعالى: {وأمهات نسائكم} (النتف في الفتاوى للسغدي۔253،254/1، دار الفرقان) 
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ وَ رَبَآىٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ٘-فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ٘-وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ-وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ (سورۃ النساء الآیۃ ٢٣)
 ترجمۂ کنز الایمان 
حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں ان بیویوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں میں حرج نہیں اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنیں اکٹھی کرنا مگر جو ہو گزرا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ النساء الآیۃ ٢٣)
(تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں) 
اس سے معلوم ہوا کہ منہ بولے بیٹوں کی عورتوں کے ساتھ نکاح جائز ہے اور رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے کیونکہ وہ نسبی بیٹے کے حکم میں ہے اور پوتے پر پوتے بھی بیٹوں میں داخل ہیں ۔ (تفسیر صراط الجنان تحت الآیۃ المذکورۃ)
حضور فقیہ ملت مفتی محمد جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ سے یہی سوال ہوا تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایا 
بہو کے ساتھ نکاح حرام قطعی ہے ہرگز ہرگز جائز نہیں پارۂ چہارم کی آخری آیت کریمہ میں ہے 
وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ 
یعنی تمہارے نسبی بیٹوں کی بیویاں تمھارے لئے حرام ہیں
 (فتاویٰ فیض الرسول ج ١ ص ٥٦٨)
والله ورسوله اعلم بالصواب 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔17/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area