Type Here to Get Search Results !

کیا انی جاعل فی الارض خلیفۃ کے مخاطب ابلیس بھی تھا

 سوال نمبر (١٧٤)

کیا انی جاعل فی الارض خلیفۃ کے مخاطب ابلیس بھی تھا
:::-----------------------------------------:::
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ کی بارگاہ میں ایسا کہنا کہ اللہ نے کہا ابلیس سے کہ میں اپنا نائب  بھیجنا چاہتا ہوں بنانا چاہتاہوں ابلیس نے کہا کہ تیری عبادت کے لئے میں کافی ہوں اختصار کے ساتھ اس طرح کہنا کیسا جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔۔
سائل:- محمد جمال الدین برکاتی ابدالی ایڈیٹر اہلسنت کا ترجمان ششماہی برکات ابدالیہ نیپال۔
:-----------------------------------------:
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
 وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
صورت مسئولہ میں
آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے قبل اللہ سبحانہ و تعالی نے فرشتوں کو خطاب فرما یا کہ میں خلیفہ بنا نے والا ہوں ۔ نہ کہ ابلیس سے فرما یا ،‌ قرآن کی نص شاہد ہے اور صریح کلمہ  وارد ہے للملئکہ پھر ابلیس شامل خجطاب باری تعالی کیسے ہو سکتا ہے ۔
میں نے تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر بیضاوی تفسیر راضی تفسیر خزائن العرفان کا مطالعہ کیا پر کسی مفسر قرآن نے و إذ قال ربك للملئکہ کی تفسیر میں ابلیس کو شامل نہیں کیا ہے ۔
البتہ حکم  سجود آدم علیہ السلام میں ابلیس داخل ہے ۔ابلیس کا غرور و تکبر کرنا اللہ تعالی کے پاس اپنے آپ کو بہتر ظاہر کرنا یہ سارے امور حضرت آدم علیہ السلام کے حکم سجدہ کے وقت کا ہے نہ کہ تخلیق آدم علیہ السلام ۔
لہذا زید کا قول کہ اللہ تعالی نے ابلیس سے فرما یا کہ میں اپنا نائب بھیجنا یا بنا نا چاہتا ہوں، درست نہیں ہے اگر اپنی خطاب میں سہوا کہ دیا ہے تو توبہ و رجوع لازم ہے اور اگر عمدا کہا ہے تو اس سے اس بابت استفسار کیا جائے ۔کہ اس سے اس کی مراد کیا ہے ۔بعدہ اس پر شرعا حکم لگایا جا سکتا ہے ۔کہ عموما خطیب اس طرح کے جملے سہوا کہ دیتے ہیں استفسار پر اپنی قول سے رجوع کر لیتے ہیں کہ مجھ سے یہ سہوا ہوا ہے ۔۔
اس بابت اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے :
واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ
اس آیت کے تحت علامہ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو خطاب فرمایا یہ مشورہ کے لئے نہیں تھا بلکہ ان میں جو حرکات، عبادت، تسبیح اور تقدیس کی رؤیت موجود تھی اس کا ظاہر کرنا تھا۔ پھر فرشتوں کو انسانوں کا جو قیم (باپ) تھا اس کی طرف لوٹا یا اور فرمایا : اسجدوا لادم
(اعراف (آدم کے لئے سجدہ کرو) (تفسیر القرطبی - سورۃ نمبر 2 البقرة ،آیت نمبر 30)
امام ابن کثیر رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے
آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ۔
فرشتوں نے با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے ؟
اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں، تسبیح و تقدیس وتحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے۔ ان میں عابد، زاہد، اولیاء، ابرار، نیکوکار، مقرب بارگاہ، علماء، صلحاء، متقی، پرہیزگار، خوف الٰہی، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے۔
صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ
جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے  (تفسیر ابن کثیر - سورۃ  2 البقرة آیت 30 )
والله ورسوله أعلم بالصواب

کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری  لہان ١٨، ضلع سرہا ،خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال،
١٥،ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری. ١،نوفمبر  ۲۰۲۰،عیسوی ،يوم الاحد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال۔
(١) مفتی ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٣) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔
المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
١/١١/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area