(سوال نمبر 5045)
کرایہ پر مکان لے کر کرایہ پر دینا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جناب محترم مفتی صاحب گزارش ہے کہ بندہ ناچیز اپ سے اس بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے کہ کہ ہم نے مالک مکان سے مکان کا ایک پورشن لیا جس کی قیمت ہم نے ایڈوانس کی صورت میں زیادہ دی اور کرایہ اس کا کم ہوا تو اس صورت میں اسٹام لکھا جاتا ہے جس کے اوپر سال کی مدت بھی لکھی جاتی ہےکہ کتنے سال کے لیے معاہدہ طے پایا ہے اور گروی نامہ لکھا جاتا ہے کہ گروی کی صورت میں ایڈوانس زیادہ ہو جاتا ہے اور کرایہ کم کیا اس طرح مکان لینا یہ درست ہے اور مکان کے اس پورشن کے کئی کام میں اپنے ذمے سے بھی کروا لیتا ہوں میری رہنمائی فرمائیں?
کیا گروی مکان لے کر کرائے پہ دیا جا سکتا ہے یا اگے کسی اور کو گروی دیا جا سکتا ہے ؟ اور کیا مالک اگر رقم کے عوض مکان کا ایک یا دو پورشن مالکانہ حقوق پر کچھ سال کے لیے دوسرے بندے کو دے دے اور وہ اختیار دے کے اپ اس کو کرائے پر بھی دے سکتے ہیں اور گروی پہ بھی اور باقی کام اپ کے ذمے ہوں گے اس کی توڑ پھوڑ دیکھ بھال تمام بل وغیرہ تو اس طرح لے کر دوسرے کو دینا درست ہوگا ؟
اور تیسرے سورت کیا کوئی صورت بنتی ہے کہ ہم مالک مکان سے مکان لے کر کرائے پر دے سکتے ہیں میری رہنمائی فرمائے جزاک اللہ خیرا کثیرا
سائل:- محمد رضوان لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
آپ کرایہ پر مکان لے کر اگے دوسرے کو کرایہ پر دے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے
یعنی کرایہ پر لی ہوئی چیز کو آگے کرایہ پر دینا شرعا جائز ہے بشرطیکہ اصل مالک نے آگے کرایہ پر دینے سے منع نہ کیا ہو اور کسی ایسے شخص کو کرایہ پر نہ دے جس کے کام سے مکان کی تعمیر کو نقصان ہو البتہ کرائے دار کا کسی دوسرے شخص کو متعین کرایہ سے زیادہ رقم پرکرائے پر دینا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ کرایہ دار نے اس کرایہ کے مکان میں کچھ اضافی کام مثلا رنگ یا اس میں دیگر تعمیراتی کام وغیرہ کرایا ہو لیکن اگر اس نے دکان میں کچھ بھی کام نہیں کروایا تو اصل کرایہ سے زائد کرایہ لینا اس کے لئے جائز نہیں ہوگا اگر لے گا تو اس اضافی رقم کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
الفتاوى الهندية میں ہے
وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة وله أن يؤاجرها من شاء إلا الحداد والقصار والطحان وما أشبه ذلك مما يضر بالبناء ويوهنه هكذا في السراج الوهاج (الفتاوى الهندية (4/ 425)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار میں ہے
ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا، (قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 29)
کرایہ پر مکان لے کر کرایہ پر دینا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جناب محترم مفتی صاحب گزارش ہے کہ بندہ ناچیز اپ سے اس بارے میں معلومات کرنا چاہتا ہے کہ کہ ہم نے مالک مکان سے مکان کا ایک پورشن لیا جس کی قیمت ہم نے ایڈوانس کی صورت میں زیادہ دی اور کرایہ اس کا کم ہوا تو اس صورت میں اسٹام لکھا جاتا ہے جس کے اوپر سال کی مدت بھی لکھی جاتی ہےکہ کتنے سال کے لیے معاہدہ طے پایا ہے اور گروی نامہ لکھا جاتا ہے کہ گروی کی صورت میں ایڈوانس زیادہ ہو جاتا ہے اور کرایہ کم کیا اس طرح مکان لینا یہ درست ہے اور مکان کے اس پورشن کے کئی کام میں اپنے ذمے سے بھی کروا لیتا ہوں میری رہنمائی فرمائیں?
کیا گروی مکان لے کر کرائے پہ دیا جا سکتا ہے یا اگے کسی اور کو گروی دیا جا سکتا ہے ؟ اور کیا مالک اگر رقم کے عوض مکان کا ایک یا دو پورشن مالکانہ حقوق پر کچھ سال کے لیے دوسرے بندے کو دے دے اور وہ اختیار دے کے اپ اس کو کرائے پر بھی دے سکتے ہیں اور گروی پہ بھی اور باقی کام اپ کے ذمے ہوں گے اس کی توڑ پھوڑ دیکھ بھال تمام بل وغیرہ تو اس طرح لے کر دوسرے کو دینا درست ہوگا ؟
اور تیسرے سورت کیا کوئی صورت بنتی ہے کہ ہم مالک مکان سے مکان لے کر کرائے پر دے سکتے ہیں میری رہنمائی فرمائے جزاک اللہ خیرا کثیرا
سائل:- محمد رضوان لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
آپ کرایہ پر مکان لے کر اگے دوسرے کو کرایہ پر دے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے
یعنی کرایہ پر لی ہوئی چیز کو آگے کرایہ پر دینا شرعا جائز ہے بشرطیکہ اصل مالک نے آگے کرایہ پر دینے سے منع نہ کیا ہو اور کسی ایسے شخص کو کرایہ پر نہ دے جس کے کام سے مکان کی تعمیر کو نقصان ہو البتہ کرائے دار کا کسی دوسرے شخص کو متعین کرایہ سے زیادہ رقم پرکرائے پر دینا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ کرایہ دار نے اس کرایہ کے مکان میں کچھ اضافی کام مثلا رنگ یا اس میں دیگر تعمیراتی کام وغیرہ کرایا ہو لیکن اگر اس نے دکان میں کچھ بھی کام نہیں کروایا تو اصل کرایہ سے زائد کرایہ لینا اس کے لئے جائز نہیں ہوگا اگر لے گا تو اس اضافی رقم کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
الفتاوى الهندية میں ہے
وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة وله أن يؤاجرها من شاء إلا الحداد والقصار والطحان وما أشبه ذلك مما يضر بالبناء ويوهنه هكذا في السراج الوهاج (الفتاوى الهندية (4/ 425)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار میں ہے
ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا، (قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 29)
المصنف لعبد الرزاق میں ہے
اخبرنا الثوری وسالہ عن الرجل یستاجر ذلک ثم یؤاجرہ باکثر من ذلک فقال اخبرنی عبیدۃ عن ابراہیم وحصین عن الشعبی ورجل عن مجاھد انھم کانوا یکرھونہ الا ان یحدث فیہ عملا (المصنف لعبد الرزاق ۸/۲۱)
المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے
قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله (المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 429)
میں اضافہ کرنا پایا گیا تو زیادہ کرایہ پر آگے دے سکتے ہیں۔
صَدْرُ الشَّرِیعَہ، بَدْرُ الطَّرِیقہ مُفتی اَمجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں مُسْتَاجِر (کرایہ دار) نے مکان یا دکان کو کِرایَہ پر دیدیا اگر اُتنے ہی کِرایَہ پر دیا ہے جتنے میں خود لیا تھا یا کَم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے اُسے صدقہ کردے ہاں اگر مکان میں اِصلاح کی ہو اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یا کرایہ کی جِنْس بدل گئی مثلاً:لیا تھا روپے پر،دیا ہو اشرفی پر، اب بھی زیادتی جائز ہے۔ جھاڑو دیکر مکان کو صاف کرلینا یہ اِصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے اِصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو مثلاًپلاستر کرایا یا مونڈیر بَنوائی۔(بہار شریعت،3/124، مکتبۃ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔24/07/2023
اخبرنا الثوری وسالہ عن الرجل یستاجر ذلک ثم یؤاجرہ باکثر من ذلک فقال اخبرنی عبیدۃ عن ابراہیم وحصین عن الشعبی ورجل عن مجاھد انھم کانوا یکرھونہ الا ان یحدث فیہ عملا (المصنف لعبد الرزاق ۸/۲۱)
المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے
قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله (المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 429)
میں اضافہ کرنا پایا گیا تو زیادہ کرایہ پر آگے دے سکتے ہیں۔
صَدْرُ الشَّرِیعَہ، بَدْرُ الطَّرِیقہ مُفتی اَمجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں مُسْتَاجِر (کرایہ دار) نے مکان یا دکان کو کِرایَہ پر دیدیا اگر اُتنے ہی کِرایَہ پر دیا ہے جتنے میں خود لیا تھا یا کَم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جوکچھ زیادہ ہے اُسے صدقہ کردے ہاں اگر مکان میں اِصلاح کی ہو اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یا کرایہ کی جِنْس بدل گئی مثلاً:لیا تھا روپے پر،دیا ہو اشرفی پر، اب بھی زیادتی جائز ہے۔ جھاڑو دیکر مکان کو صاف کرلینا یہ اِصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے اِصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو مثلاًپلاستر کرایا یا مونڈیر بَنوائی۔(بہار شریعت،3/124، مکتبۃ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔24/07/2023