Type Here to Get Search Results !

کیا مسجد کی دیوار سے ذاتی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟

(سوال نمبر ١٥٩)


کیا مسجد کی دیوار سے ذاتی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟


:---------------

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

حضور امید کرتے ہیں کہ اللہ پاک کی رحمت سے خیرو عافیت سے ہوں گے آپ، کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ایک اسلامی بھائی کا گھر مسجد کے بگل میں ہے ایک گھر بن چکا ہےاور مزید گھر بنانے کی تیاری شروع ہےاور جو گھر بن چکا ہے اس کے مسجد کے طرف کا دیوار نہیں دیا گیا ہےجو گھر بنایا جارہا ہے اس میں بھی دیوار دینے کا ذہن نہیں ہےاس اسلامی بھائی کا کہنا ہے کہ جب مسجد کا دیوار ہےتو میں اپنا دیوار کیوں دوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے تو  

وہ بولے کہ کونسے کتاب میں لکھا ہے کہ مسجد کے دیوار سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے

یہ تو اللہ کا گھر ہے تو اس سے فائدہ اٹھانے میں کیا حرج ہے،جس طرح میں آپ کی بارگاہ میں یہ فوٹو بھیجا ہوں وہ گھر کے دروازے سے فوٹو لیا گیا ہے گھر کے تینوں طرف دیوار ہے لیکن مسجد کی طرف دیوار نہیں ہے بخوبی آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں برائے کرم اس کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریری جواب عطا فرما کر شکریہ کا موقع دیجئے ۔۔۔

علمائے کرام کا خادم 

سائل:-محمد ارشاد احمد رضوی مقیم مٹیہانی ضلع مہوتری نیپال۔

:---------------

نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 


الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 

صورت مستفسره میں

چونکہ مسجد کی دیوار بھی مسجد کے حکم میں ہے اس لئے جو حکم مسجد کا ہے وہی حکم مسجد کی دیوار کا بھی ہے اور یہی حکم مسجد کی چھت کا بھی ہے اس لئے کوئی شخص حتی کہ متولی بھی ذاتی طور پر انھیں استعمال نہیں کر سکتا یہی حال مسجد کا لوٹا نل چٹائی کا بھی ہے، صورت مسئولہ میں اپنے گھر کے لئے تین طرف سے دیوار اور مسجد کی طرف دیوار نہ دینا گویا کے اپنے ذاتی گھر کے لئے مسجد کی دیوار کو استعمال کرنا ہے جو کہ شرعا جائز نہیں ہے ۔البتہ مسجد کی دیوار کے ساتھ پانچ اینچ کی دیوار لگا سکتے ہیں ۔نہ لگانے پر مسجد کی دیوار کی بے حرمتی ممکن ہے جیسا کہ تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔جنبی و حائض کا دیوار کو مس کرنا یا یا ناپاک کپڑا دیوار پر لٹکا دینا۔جبکہ مسجد کی دیوار کی حرمت مسجد کی طرح ہے ۔

حتی اگر کوئی مسجد ویران ہوگئی اور وہاں لوگ بھی نہ رہے تو مسجد کا سمان دوسری مسجد میں منتقل کر دے پر کوئی اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا اور اگر منہدم ہوجائے اور خوف ہو کہ لوگ عملہ اٹھا لے جائیں گے تو اسے بھی دوسری مسجد میں منتقل کر دے پر مہندم شدہ اشیاء کو کوئی اپنی ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا ۔اسی طرح بہار شریعت میں ہے. (ح ١٠ص ٩٥) 

اسی طرح مسجد کا پانی یا کوئی اور چیز جیسے سیڑھی ایٹ دیوار وغیرہ مسجد کے لیے وقف ہوتی ہے اور مسجد کا متولی صرف منتظم ہوتا ہے، مالک نہیں ہوتا؛ لہٰذا مسجد کے متولی بھی مسجد کی کوئی چیز کسی کو ذاتی استعمال کے لیے دینا ہرگز جائز نہیں اور نہ ہی کسی کا مسجد کی کوئی چیز اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے، ”متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد“ کذا في فتاوی قاضي خان اھ (فتاوی عالمگیري)

چونکہ مسجد میں وقف شدہ اشیاء ملکِ خدا ہوتی ہے، اس میں بیع، ہبہ یا کوئی دوسرا تصرف جو اس نوع کا ہو مثلاً تبادلہ،یا ذاتی استعمال،تو یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

جیسا کہ در مختار میں ہے 

 (الوقف) ہو حبسہا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ وصرف منفعتہا علی من أحبّ (درمختار) وفي رد المحتار: قدر لفظ حکم لیفید أن المراد أنہ لم یبق علی ملک الواقف ولا انتقل إلی ملک غیرہ، بل صار علی حکم ملک اللہ تعالی الذی لا ملک فیہ لأحد سواہ․

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 2469/ص4257)

 فإذا تمّ ولزم لا یُمٴلَکُ ولا یُمَلَّکُ ولا یعار ولا یُرہَن 

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 2483/4257)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔


كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨:

خادم البرقي دار الإفتاء. سني شرعي بورڈ آف نیپال ۔

 الخميس، ١٥ أكتوبر ٢٠٢٠ء۔

٢٨صفر ١٤٤٢ھ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال۔

(١) قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال حضرت علامہ مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی جنکپور ۔

(٢) مفتي ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔

(٣) مفتي محمد رضا قادری مصباحی مدرس الجماعة الأشرفية مبارك پور اعظم گڑھ یوپی 

(٤) مفتي محمد عابد حسین افلاك المصباحی صاحب 

(٥) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔۔

المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔

الخمیس ١٥أكتوبر ٢٠٢٠ء /٢٨،صفر، ١٤٤٢ھ 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area