Type Here to Get Search Results !

کبڈی کھیلنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر ١٥٨)

کبڈی کھیلنا کیسا ہے؟

:-----------------
السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کبڈی کھیلنے کے بعد جو رقم ملتی ہے اس روپیہ کو مسجد و مدرسہ و عید گاہ میں لگا سکتے ہیں یا نہیں ؟ براہ کرم بحوالہ جواب عنایت کریں۔
سائل ۔عبدالرزاق انصاری. رضوی محلہ بوکارو جھارکھنڈ انڈیا۔۔
:------------------------
نحمده ونصلي على رسوله الأمين.

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
صورت مستفسره میں
ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط ہو کہ ہارنے والے کی کوئی چیز چیتنے والے کو دیجائے گی قمار یعنی جوا ہے،عربی میں قمار کا معنی ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط لگائی جائے کہ غالب مغلوب سے کوئی چیز لےگا، خواہ یہ تاش کے ذریعے ہو یا کرکٹ کبڈی و والی وال یا کسی اور  ذریعے سے ۔ایسا کھیل کھیلنا اور اور اس میں ملنے والی رقم حرام ہے ۔نہ خود کھانا جائز ہے نہ مسجد و مدرسہ میں دینا جائز ہے ۔
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔(المائدہ، 5: 90)
درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے شراب نوشی، جوئے، بت پرستی اور فال کے تیروں کا ناپاک اور شیطانی اعمال قرار دیا ہے۔ اس لیے جب کھیل یا دیگر کسی معاملے میں یہ شرط عائد کردی جائے کہ ہارنے والا‘ جیتنے والے کو کوئی چیز دے گا تو ایسی شرط جوئے کے زمرے میں آنے کی وجہ سے حرام  ہے۔ اگر کوئی تیسرا فریق جیتنے والے کو انعام کے طور پر دے تو یہ جائز اور درست ہے۔
اور چونکہ یہ انعام والی رقم اس کی ملکیت ہوگی تو اسے اب مسجد و مدرسہ اور نیک کام میں صرف کر سکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ کوئی بھی کھیل اصلا مباح ہے جو لہو سے خالی ہو اور بنیت جسمانی ورزش ہو اور شرعا جسم مستور ہو  مگر اس کی اباحت اس وقت جاتی رہے گی جب یہ کھیل کسی فرض و واجب و سنن کی ادائیگی میں رکاوٹ بنے یا اس کھیل پر جوا لگایا جائے اور شریعت میں لہو و لعب کی جو ممانعت ہے اس کا منشاء بھی یہی ہے کہ انسان اپنے دینی فرائض و واجبات اور دنیاوی ذمہ داریوں کو بھول کر کھیل کود میں ایسا مشغول ہو جائے کہ اسے موت یاد رہے اور نہ روزِ‌ حشر کے حساب کا خیال رہے۔ لیکن کوئی بھی کھیل‘ جب تک کہ اس میں کوئی غیرشرعی کام شامل نہ ہو‘ نماز، روزہ، رزقِ حلال یا دیگر فرائض میں تاخیر، سستی یا چھوٹ جانے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی اس پر کسی قسم کا جوا لگایا گیا ہو‘ اس کا کھیلنا اور دیکھنا شرعاً جائز ہے۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
جو ایک طرفہ ہو جائز ہے کہ انعام ہوں اگر تیسرا کہہ دے کہ تم میں سے جو جیتے گا اسے یہ انعام ملے گا جائز ہے  (المرأة المناجيح ج ٥ ص ١٧٢)
مجتهد في المسائل الشاه أمام أحمد رضا خان رضي الله عنه فرماتے ہیں سود کھانا اور جوا کھیلنا حرام ہے اور سخت کبائر ہیں اور ان میں سے کسی فعل کا مرتکب مستحق نار و غضب جبار ہے کہ ان دونوں کا اثر مال پر ہوتا ہے ۔(فتاوی رضویہ ج ٢١/ص١٣ دعوت اسلامي. )
جیسا کہ الفقہ مذاہب اربعہ میں ہے
وكذلك نهت الشريعة نهيا شديدا عن الميسر "القمار" فحرمته بجميع أنواعه،الحنفية - قالوا: المسابقة مندوبة إذا قصد بها الرياضة والتمرين على الجهاد، وإذا لم يقصد بها شيء فهي مباحة. (الفقه على المذاهب الأربعة - 698/2230)
اور اسی طرح بدائع صنائع میں ہے
(أما) القمار فلقوله عز وجل {يا أيها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس} [المائدة: 90] وهو القمار كذا روى ابن عباس وابن سيدنا عمر - رضي الله عنهم - وروي عن مجاهد وسعيد بن جبير والشعبي وغيرهم - رضي الله عنهم - أنهم قالواالميسر القمار كله  (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - 1260/2127)
اور اسی طرح هدايه آخرين میں ہے
و كل لهو لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص و هو اسم لكل قمار و إن لم يقامر بها فهو  و لهو. (الهداية اخيرين ث ٤٥٩)
کما فی الفتاوی الہندیہ
ﻭ‍ﺇ‍ﻧ‍‍ﻤ‍‍ﺎ ‍ﻳ‍‍ﺠ‍‍ﻮ‍ﺯ ‍ﺫ‍ﻟ‍‍ﻚ‍ ‍ﺇ‍ﻥ‍ ‍ﻛ‍‍ﺎ‍ﻥ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺒ‍‍ﺪ‍ﻝ‍ ‍ﻣ‍‍ﻌ‍‍ﻠ‍‍ﻮ‍ﻣ‍‍ﺎ ‍ﻓ‍‍ﻲ‍ ‍ﺟ‍‍ﺎ‍ﻧ‍‍ﺐ‍ ‍ﻭ‍ﺍ‍ﺣ‍‍ﺪ ‍ﺑ‍‍ﺄ‍ﻥ‍ ‍ﻗ‍‍ﺎ‍ﻝ‍: ‍ﺇ‍ﻥ‍ ‍ﺳ‍‍ﺒ‍‍ﻘ‍‍ﺘ‍‍ﻨ‍‍ﻲ‍ ‍ﻓ‍‍ﻠ‍‍ﻚ‍ ‍ﻛ‍‍ﺬ‍ﺍ, ‍ﻭ‍ﺇ‍ﻥ‍ ‍ﺳ‍‍ﺒ‍‍ﻘ‍‍ﺘ‍‍ﻚ‍ ‍ﻟ‍‍ﺎ ‍ﺷ‍‍ﻲ‍ﺀ ‍ﻟ‍‍ﻲ‍ ‍ﻋ‍‍ﻠ‍‍ﻴ‍‍ﻚ‍ ‍ﺃ‍ﻭ ‍ﻋ‍‍ﻠ‍‍ﻰ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻘ‍‍ﻠ‍‍ﺐ‍, ‍ﺃ‍ﻣ‍‍ﺎ ‍ﺇ‍ﺫ‍ﺍ ‍ﻛ‍‍ﺎ‍ﻥ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺒ‍‍ﺪ‍ﻝ‍ ‍ﻣ‍‍ﻦ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺠ‍‍ﺎ‍ﻧ‍‍ﺒ‍‍ﻴ‍‍ﻦ‍ ‍ﻓ‍‍ﻬ‍‍ﻮ ‍ﻗ‍‍ﻤ‍‍ﺎ‍ﺭ ‍ﺣ‍‍ﺮ‍ﺍ‍ﻡ‍ ‍ﺇ‍ﻟ‍‍ﺎ ‍ﺇ‍ﺫ‍ﺍ ‍ﺃ‍ﺩ‍ﺧ‍‍ﻠ‍‍ﺎ ‍ﻣ‍‍ﺤ‍‍ﻠ‍‍ﻠ‍‍ﺎ ‍ﺑ‍‍ﻴ‍‍ﻨ‍‍ﻬ‍‍ﻤ‍‍ﺎ ‍ﻓ‍‍ﻘ‍‍ﺎ‍ﻝ‍ ‍ﻛ‍‍ﻞ‍ ‍ﻭ‍ﺍ‍ﺣ‍‍ﺪ ‍ﻣ‍‍ﻨ‍‍ﻬ‍‍ﻤ‍‍ﺎ: ‍ﺇ‍ﻥ‍ ‍ﺳ‍‍ﺒ‍‍ﻘ‍‍ﺘ‍‍ﻨ‍‍ﻲ‍ ‍ﻓ‍‍ﻠ‍‍ﻚ‍ ‍ﻛ‍‍ﺬ‍ ﺍ, ‍ﻭ‍ﺇ‍ﻥ‍ ‍ﺳ‍‍ﺒ‍‍ﻘ‍‍ﺘ‍‍ﻚ‍ ‍ﻓ‍‍ﻠ‍‍ﻲ‍ ‍ﻛ‍‍ﺬ‍ﺍ, ‍ﻭ‍ﺇ‍ﻥ‍ ‍ﺳ‍‍ﺒ‍‍ﻖ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺜ‍‍ﺎ‍ﻟ‍‍ﺚ‍ ‍ﻟ‍‍ﺎ ‍ﺷ‍‍ﻲ‍ﺀ ‍ﻟ‍‍ﻪ‍, ‍ﻭ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﻤ‍‍ﺮ‍ﺍ‍ﺩ ‍ﻣ‍‍ﻦ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺠ‍‍ﻮ‍ﺍ‍ﺯ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺤ‍‍ﻞ‍ ‍ﻟ‍‍ﺎ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺎ‍ﺳ‍‍ﺘ‍‍ﺤ‍‍ﻘ‍‍ﺎ‍ﻕ‍, ‍ﻛ‍‍ﺬ‍ﺍ ‍ﻓ‍‍ﻲ‍ ‍ﺍ‍ﻟ‍‍ﺨ‍‍ﻠ‍‍ﺎ‍ﺻ‍‍ﺔ. ( الهندية ٣٢٤/٥ كتاب الكراهية الباب السادس)

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨:خادم البرقي دار الإفتاء. سني شرعي بورڈ آف نیپال ۔
١٤ أكتوبر ٢٠٢٠ء۔
٢٧ صفر ١٤٤٢ھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال ۔
(١) قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال حضرت علامه  مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی جنکپور ۔
(٢) مفتي ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٣) مفتي محمد عابد حسين افلاك المصباحي صاحب
(٤) مفتي محمد أحمد رضا الثقافي صاحب
(٦) مفتی کلام الدین نعمانی مصباحی صاحب
(٧)  حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔۔
المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔۔۔۔۔۔
الأربعاء  ١٤ أكتوبر ٢٠٢٠ء /٢٧،صفر، ١٤٤٢ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area