(سوال 6006)
جب حضور دور و نزیک کے سنتے ہیں تو درود سلام پہنچانے کے لیے فرشتے کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
آقا علیہ السلام کو علم غیب عطائی حاصل ہے اور وہ دور و نزیک کا سنتے ہیں جس طرح رب اپنے بندوں کے ذرہ ذرہ افعال سے واقف ہے کہ کون کب کس وقت کیا کرتا ہے سب رب کو معلوم ہے پھر بھی أعمال لکھنے والے فرشتے دنیا بھر کے اعمال دو وقتہ پیش کرتے رہتے ہیں یہ پیشی رب تعالٰی کی بے علمی کی وجہ سے نہیں اسی طرح حضور پر امت کے درود فرشتے پیش کرتے ہیں اس لیئے نہیں کہ حضور بے خبر ہیں۔بلکہ بطور عزت و شرف یے
درود شریف اپ پر پیش بھی کئے جاتے ہیں اور آپ خود بھی سنتے ہیں دونوں روایت ہے اور جب حدیث موجود ہے تو اعتراض کی کوئی جگہ نہیں۔
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے حضرت ابو موسیٰ سے فرماتے ہیں کہ ہم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزیں بتانے کو قیام فرمایا کہ یقینًا ﷲ تعالٰی نہ سوتا ہے نہ سونا اس کے لائق ہے پلہ یا رزق جھکاتا یا اٹھاتاہے اس کی بارگاہ میں رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات کے اعمال سے پہلے پیش ہوجاتے ہیں اس کا پردہ نور ہے اگر پردہ کھول دے تو اس کی ذات کی شعاعیں (تجلیات) تاحدِ نظر مخلوق کو جلادیں (مسلم بحوالہ المرات ج ١ ص ٨٩ )
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے انہی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ﷲ کے کچھ فرشتے زمین میں سیر و سیاحت کرتے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں (نسائی،دارمی)
یعنی ان فرشتوں کی یہی ڈیوٹی ہے کہ وہ آستانہ عالیہ تک امت کا سلام پہنچایا کریں۔یہاں چند باتیں قابل خیال ہیں ایک یہ کہ فرشتے کے درود پہنچانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضور بنفس نفیس ہر ایک کا درود نہ سنتے ہوں،حق یہ ہے کہ سرکار ہر دورو قریب کے
درود خواں کا درود سنتے بھی ہیں اور درود خواں کی عزت افزائی کے لیے فرشتے بھی بارگاہِ عالی میں درود پہنچاتے ہیں تاکہ درود کی برکت سے ہم گنہگاروں کا نام آستانہ عالیہ میں فرشتہ کی زبان سے ادا ہو۔ سلیمان علیہ السلام نے تین میل سے چیونٹی کی آواز سنی تو حضور ہم گنہگاروں کی فریاد کیوں نہ سنیں گے،دیکھو رب تعالٰی ہمارے اعمال دیکھتا ہے پھر بھی اسکی بارگاہ میں فرشتے اعمال پیش کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ یہ فرشتے ایسے تیز رفتار ہیں کہ ادھر امتی کے منہ سے درود نکالا ادھر انہوں نے سبز گنبد میں پیش کیا اگر کوئی ایک مجلس میں ہزار بار درود شریف پڑھیں تو یہ فرشتہ ان کے اور مدینہ طیبہ کے ہزار چکر لگائے گا یہ نہ ہوگا کہ دن بھر کے درود تھیلے میں جمع کرکے ڈاک کی طرح شام کو وہاں پہنچائے جیسا کہ اس زمانہ کے بعض جہلاء نے سمجھا۔ تیسرے یہ کہ ﷲ تعالٰی نے فرشتوں کو حضور انور کا خدام آستانہ بنایا ہے،حضور انور کا خدمت گار ان فرشتوں کا سا رتبہ رکھتے ہیں۔ (المرات ج ٢ ص ١٥٠)
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش، 2 : 206)
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے پوچھا گیا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر نزدیک سے درود بھیجتے ہیں دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے ،کیا یہ سب درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو پیش کیے جاتے ہیں ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا أسمع صلاة أهلِ محبتي وأعرفهم ۔
میں اہلِ محبت کا درود خود سنتا ہوں اور اُنہیں پہچانتا (بھی) ہوں ۔
(جزولي، دلائل الخيرات وشوارق الأنوار في ذکر الصلاة علي النّبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم : 18،چشتی)(فاسي، مطالع المسرّات بجلاء دلائل الخيرات وشوارق الأنوار في ذکر الصلاة علي النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم 81)
اِس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ محبت کا درود نہ صرف خود سُنتے ہیں بلکہ بھیجنے والوں کو پہچانتے بھی ہیں، اگرچہ وہ دور کسی مقام پر اور بعد کے کسی زمانے میں ہی کیوں نہ ہوں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سلام کا جواب بھی عطا فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نہ صرف اُمت کی طرف سے بھیجا جانے والا درود و سلام سُنتے ہیں بلکہ اس کا جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں
والله ورسوله اعلم بالصوب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔٢٨/٠٧/٢٠٢٣
جب حضور دور و نزیک کے سنتے ہیں تو درود سلام پہنچانے کے لیے فرشتے کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
آقا علیہ السلام کو علم غیب عطائی حاصل ہے اور وہ دور و نزیک کا سنتے ہیں جس طرح رب اپنے بندوں کے ذرہ ذرہ افعال سے واقف ہے کہ کون کب کس وقت کیا کرتا ہے سب رب کو معلوم ہے پھر بھی أعمال لکھنے والے فرشتے دنیا بھر کے اعمال دو وقتہ پیش کرتے رہتے ہیں یہ پیشی رب تعالٰی کی بے علمی کی وجہ سے نہیں اسی طرح حضور پر امت کے درود فرشتے پیش کرتے ہیں اس لیئے نہیں کہ حضور بے خبر ہیں۔بلکہ بطور عزت و شرف یے
درود شریف اپ پر پیش بھی کئے جاتے ہیں اور آپ خود بھی سنتے ہیں دونوں روایت ہے اور جب حدیث موجود ہے تو اعتراض کی کوئی جگہ نہیں۔
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے حضرت ابو موسیٰ سے فرماتے ہیں کہ ہم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزیں بتانے کو قیام فرمایا کہ یقینًا ﷲ تعالٰی نہ سوتا ہے نہ سونا اس کے لائق ہے پلہ یا رزق جھکاتا یا اٹھاتاہے اس کی بارگاہ میں رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات کے اعمال سے پہلے پیش ہوجاتے ہیں اس کا پردہ نور ہے اگر پردہ کھول دے تو اس کی ذات کی شعاعیں (تجلیات) تاحدِ نظر مخلوق کو جلادیں (مسلم بحوالہ المرات ج ١ ص ٨٩ )
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے انہی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ﷲ کے کچھ فرشتے زمین میں سیر و سیاحت کرتے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں (نسائی،دارمی)
یعنی ان فرشتوں کی یہی ڈیوٹی ہے کہ وہ آستانہ عالیہ تک امت کا سلام پہنچایا کریں۔یہاں چند باتیں قابل خیال ہیں ایک یہ کہ فرشتے کے درود پہنچانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضور بنفس نفیس ہر ایک کا درود نہ سنتے ہوں،حق یہ ہے کہ سرکار ہر دورو قریب کے
درود خواں کا درود سنتے بھی ہیں اور درود خواں کی عزت افزائی کے لیے فرشتے بھی بارگاہِ عالی میں درود پہنچاتے ہیں تاکہ درود کی برکت سے ہم گنہگاروں کا نام آستانہ عالیہ میں فرشتہ کی زبان سے ادا ہو۔ سلیمان علیہ السلام نے تین میل سے چیونٹی کی آواز سنی تو حضور ہم گنہگاروں کی فریاد کیوں نہ سنیں گے،دیکھو رب تعالٰی ہمارے اعمال دیکھتا ہے پھر بھی اسکی بارگاہ میں فرشتے اعمال پیش کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ یہ فرشتے ایسے تیز رفتار ہیں کہ ادھر امتی کے منہ سے درود نکالا ادھر انہوں نے سبز گنبد میں پیش کیا اگر کوئی ایک مجلس میں ہزار بار درود شریف پڑھیں تو یہ فرشتہ ان کے اور مدینہ طیبہ کے ہزار چکر لگائے گا یہ نہ ہوگا کہ دن بھر کے درود تھیلے میں جمع کرکے ڈاک کی طرح شام کو وہاں پہنچائے جیسا کہ اس زمانہ کے بعض جہلاء نے سمجھا۔ تیسرے یہ کہ ﷲ تعالٰی نے فرشتوں کو حضور انور کا خدام آستانہ بنایا ہے،حضور انور کا خدمت گار ان فرشتوں کا سا رتبہ رکھتے ہیں۔ (المرات ج ٢ ص ١٥٠)
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش، 2 : 206)
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے پوچھا گیا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر نزدیک سے درود بھیجتے ہیں دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے ،کیا یہ سب درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو پیش کیے جاتے ہیں ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا أسمع صلاة أهلِ محبتي وأعرفهم ۔
میں اہلِ محبت کا درود خود سنتا ہوں اور اُنہیں پہچانتا (بھی) ہوں ۔
(جزولي، دلائل الخيرات وشوارق الأنوار في ذکر الصلاة علي النّبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم : 18،چشتی)(فاسي، مطالع المسرّات بجلاء دلائل الخيرات وشوارق الأنوار في ذکر الصلاة علي النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم 81)
اِس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ محبت کا درود نہ صرف خود سُنتے ہیں بلکہ بھیجنے والوں کو پہچانتے بھی ہیں، اگرچہ وہ دور کسی مقام پر اور بعد کے کسی زمانے میں ہی کیوں نہ ہوں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سلام کا جواب بھی عطا فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نہ صرف اُمت کی طرف سے بھیجا جانے والا درود و سلام سُنتے ہیں بلکہ اس کا جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں
والله ورسوله اعلم بالصوب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔٢٨/٠٧/٢٠٢٣