(سوال نمبر 5041)
زید کا قول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اسلام سے کیا نسبت شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس کے بارے میں کہ زید جو سنی ہے اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ,,امیر معاویہ کے ایک سفیر نے حضرت علی سے خلافت کے متعلق سوال کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سخت الفاظ میں جواب دیا کہ امیر معاویہ کو اسلام سے کیا نسبت وہ اس باپ کی اولاد ہے جس کے مجاز میں منافقت تھی اور وہ اس ماں کے پیٹ سے پیدا ہوءے جس نے جنگ احد میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے غلام وحشی کے ذریعہ شہید کروایا اور کان ناک کاٹ کر اس کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا اورسینہ چیر کر کلیجہ باہر نکالا اور اسے چبایا ,دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید جس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی اپنی کتاب میں لکھا اور یہ لکھا کہ ان ان کا اسلام سے کیا نسبت زید پر کیا حکم لگے گا,
بینوا و توجروا
المستفتی:-عبد الروف کھنوسیہ ویر پور,ہمت نگر گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
زید کا قول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اسلام سے کیا نسبت ہے یہ رفض ہے ایسا شخص گنراہ بد مذہب ہے ۔سچے دل سے توبہ و استغفار کریں ۔حضرت امیر ہمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ سچ ہے پر ایمان لانے سے قبل کا واقعہ ہے اور حضرت علی نے سخت الفاظ میں خلافت کے بابت جواب دئے کہ انہیں اسلام سے کیا نسبت یہ درست نہیں ہے ۔
جو بھی عمدا صحابی رسول کا علم ہونے کے باوجود کسی صحابی یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی صحابی ہونے کی وجہ سے گستاخی یا برائی کرے وہ شخص خارج از اسلام ہے تجدید ایمان و نکاح ضروری ہے نئے مہر و شرعی گواہ کے ساتھ اگر زید رضا و رغبت سے ان کے بابت یہ قول کرنا کہ انہیں اسلام سے کیا نسبت کفر یے ۔
یاد رہے کہ کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی، کاتب اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں۔ قرآنِ مجید صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گرد و غبار کی قسمیں کھاتا ہے
وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاo فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاo فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاo فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعًاo
’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‘‘
(العاديت، 100: 4)
جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گرد وغبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی شان کیا ہو گی۔ ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقینا شامل ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں
وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْاج.
اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘(المومن، 40: 7)
ایسا شخص شرعی پڑوسی کے قابل نہیں ہونی ایسے شخص سے مسلمان کا سا برتائو کرنا جائز نہیں ہے البتہ دنیاوی معاملات ان سے کر سکتے ہیں
حدیث پاک میں ہے
(1) :عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔
(مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540،)
(2) آقا علیہ السلام نے فرمایا
إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔
جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔
(ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیات قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش ِ نظر اہل ِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔
فتاویٰ بزازیہ میں ہے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔
(شرح فقہ اکبر:۱۹۸)
حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں:’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔
(فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸،چشتی)
درّ مختار میں ہے
ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔(درمختار)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴،چشتی)
جس نے تمام صحابہ یا اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر ، مرتد اور فاسق کہہ کر گالی دی ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ، اس لئے کہ قرآن وسنت کے ناقلین کو کافر یا فاسق کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُسے قرآن اور حدیث میں شک ہے ، ناقلین پر افتراء پردازی کا مطلب ہے کہ منقول (قرآن وسنت) بھی جھوٹا ہے ، جب کہ قرآن نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اللہ اُن سے راضی ہوچکا ہے ۔
قرآن اور احادیث کے نصوص سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر قطعی دلالت کرتا ہے ۔ (الرد علی الرافضۃ: ۱۹) ،
تو جس نے قطعیت کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذاء پہنچانا ہے ، اس لئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خواص ، محبوب اور ساتھی تھے ، اور کسی کے محبوب و خواص کو گالی دینے پر اُسے تکلیف پہنچے گی ہی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تکلیف دینا کفر ہے۔۔
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔24/07/2023
زید کا قول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اسلام سے کیا نسبت شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس کے بارے میں کہ زید جو سنی ہے اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ,,امیر معاویہ کے ایک سفیر نے حضرت علی سے خلافت کے متعلق سوال کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سخت الفاظ میں جواب دیا کہ امیر معاویہ کو اسلام سے کیا نسبت وہ اس باپ کی اولاد ہے جس کے مجاز میں منافقت تھی اور وہ اس ماں کے پیٹ سے پیدا ہوءے جس نے جنگ احد میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے غلام وحشی کے ذریعہ شہید کروایا اور کان ناک کاٹ کر اس کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا اورسینہ چیر کر کلیجہ باہر نکالا اور اسے چبایا ,دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید جس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی اپنی کتاب میں لکھا اور یہ لکھا کہ ان ان کا اسلام سے کیا نسبت زید پر کیا حکم لگے گا,
بینوا و توجروا
المستفتی:-عبد الروف کھنوسیہ ویر پور,ہمت نگر گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
زید کا قول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اسلام سے کیا نسبت ہے یہ رفض ہے ایسا شخص گنراہ بد مذہب ہے ۔سچے دل سے توبہ و استغفار کریں ۔حضرت امیر ہمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ سچ ہے پر ایمان لانے سے قبل کا واقعہ ہے اور حضرت علی نے سخت الفاظ میں خلافت کے بابت جواب دئے کہ انہیں اسلام سے کیا نسبت یہ درست نہیں ہے ۔
جو بھی عمدا صحابی رسول کا علم ہونے کے باوجود کسی صحابی یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی صحابی ہونے کی وجہ سے گستاخی یا برائی کرے وہ شخص خارج از اسلام ہے تجدید ایمان و نکاح ضروری ہے نئے مہر و شرعی گواہ کے ساتھ اگر زید رضا و رغبت سے ان کے بابت یہ قول کرنا کہ انہیں اسلام سے کیا نسبت کفر یے ۔
یاد رہے کہ کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی، کاتب اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں۔ قرآنِ مجید صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گرد و غبار کی قسمیں کھاتا ہے
وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاo فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاo فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاo فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعًاo
’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‘‘
(العاديت، 100: 4)
جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گرد وغبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی شان کیا ہو گی۔ ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقینا شامل ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں
وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْاج.
اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘(المومن، 40: 7)
ایسا شخص شرعی پڑوسی کے قابل نہیں ہونی ایسے شخص سے مسلمان کا سا برتائو کرنا جائز نہیں ہے البتہ دنیاوی معاملات ان سے کر سکتے ہیں
حدیث پاک میں ہے
(1) :عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔
(مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540،)
(2) آقا علیہ السلام نے فرمایا
إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا: لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔
جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔
(ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیات قرآنیہ اور اِن احادیـث ِ نبویہ کے پیش ِ نظر اہل ِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔
فتاویٰ بزازیہ میں ہے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی، طلحہ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔
(شرح فقہ اکبر:۱۹۸)
حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں، ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے، اس میں تحریر فرماتے ہیں:’اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض:۳۱)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔
(فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸،چشتی)
درّ مختار میں ہے
ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔(درمختار)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴،چشتی)
جس نے تمام صحابہ یا اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر ، مرتد اور فاسق کہہ کر گالی دی ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ، اس لئے کہ قرآن وسنت کے ناقلین کو کافر یا فاسق کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُسے قرآن اور حدیث میں شک ہے ، ناقلین پر افتراء پردازی کا مطلب ہے کہ منقول (قرآن وسنت) بھی جھوٹا ہے ، جب کہ قرآن نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اللہ اُن سے راضی ہوچکا ہے ۔
قرآن اور احادیث کے نصوص سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت پر قطعی دلالت کرتا ہے ۔ (الرد علی الرافضۃ: ۱۹) ،
تو جس نے قطعیت کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کا مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذاء پہنچانا ہے ، اس لئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خواص ، محبوب اور ساتھی تھے ، اور کسی کے محبوب و خواص کو گالی دینے پر اُسے تکلیف پہنچے گی ہی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تکلیف دینا کفر ہے۔۔
والله و رسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال۔24/07/2023