Type Here to Get Search Results !

کیا کھیتی اور مکان حاجت اصلیہ میں داخل ہے یا خارج؟

 کیا کھیتی اور مکان حاجت اصلیہ میں داخل ہے یا خارج؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا کھیتی اور مکان حاجت اصلیہ میں داخل ہے یا خارج؟ قربانی واجب ہونے کےلئے کتنا بیگھا کھیت ہونا چاہیے ۔
 سائل:-مولانا محمد ادریس الانصاری، تاج الدین پور ضلع سلطان پور یوپی۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
 نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
 قربانی والے مسئلہ میں مالکِ نصاب ھونے کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے دنوں میں اس شخص کے پاس
1- ساڑھے سات تولہ سونا( 93-گرام312-ملی گرام قیمت آج:452656 )
2- یا ساڑھے باون تولہ چاندی ( 656-گرام 184- ملی گرام قیمت آج:34653 ) 
3- یا 34653 روپے
4- یا 34653 روپے کے برابر مالِ تجارت
5- یا 34653 روپے کے برابر حاجتِ اصلیہ سے زائد سامان 
5- یا 34653 روپے کے برابر بیل،بھینس، بکری وغیرہ 
6- یا 34653 روپے کےبرابرکھیتی کا مالک ھو تو اس پر قربانی واجب ھے - گھر میں جتنے لوگوں کے پاس یہ مالیت ھو گی ان سب کو اپنے اپنے نام سے قربانی کرانا ضروری ھوگا - 
اوپر جو چاندی کی قیمت 34653 روپے بتائی گئی ھے وہ آج کی ھے قربانی کے دنوں میں کچھ گھٹ بڑھ سکتا ھے - ١٧ /٧/٢٠٢٠
 اگر کسی شخص  پر اتنا قرضہ ھو کہ جس کو ادا کرنے کے بعد (اوپر بیان کردہ) نصاب باقی نہ رھے، تو اس پر قربانی واجب نہ ھو گا اس کے با وجود کرتا ھے تو سنت و مستحب کا ثواب پائے گا -  
جس پر قربانی واجب ھے اور اس وقت نقد اس کے پاس نہیں وہ چاھے قرض لے کرکرے یا اپنا کچھ مال بیچے - (بہار شریعت حصہ 15 صفحہ 333 مکتبۃ المدینہ کراچی)
(ماہنامہ اشرفیہ 2004 محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی)
 (فتاوی رضویہ ج:۸ ص:۳۹۳)
اور حاجتِ اصلیہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عموماً انسان کو ضرورت ھوتی ھے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی اور دشواری ھوتی ہے جیسے
1- رہنے کا مکان، 
2- پہننے کے کپڑے، 
3- سواری (موٹر سائیکل، گاڑی وغیرہ)،
4- علمِ دین سے متعلق کتابیں،
5- پیشے سے متعلق اوزار،
6- خانہ داری کا ضروری سامان وغیرہ.
(ماخوذ از بہار شریعت حصہ 15 صفحہ 333 مکتبۃ المدینہ کراچی)
وسعت و آسانی رکھنے والے عاقل و بالغ مسلمان،مقیم مرد و زن پر قربانی واجب قرار دی ہے،جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حدیث مبارکہ یہ ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس میں طاقت ہو اور پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہمارے مصلے کے پاس نہ آئے۔
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 321، رقم: 8256، مصر: مؤسسة قرطبة
ابن ماجه، السنن، كتاب الأضاحي، باب الأضاحي واجبة هي أم لا، 2: 1044، رقم: 3123، بيروت: دارالفكر
لہٰذا ہمارے نزدیک ضروریاتِ اصلیہ کے علاوہ وسعت و آسانی رکھنے والے شخص پر قربانی واجب ہے یعنی جس کے پاس گھریلوں ضروریات کے علاوہ اس قدر مال موجود ہو کہ وہ قربانی کا جانور خرید سکے تو اس پر قربانی واجب ہے۔ قربانی کے لیے مال پر سال گزرنا شرط نہیں ہے بلکہ دس ذی الحج سے بارہ ذی الحج کی مغرب تک مال ہونے کی صورت میں قربانی واجب ہو گی جبکہ وہ شخص جانور خرید سکے۔ اگر مال بالکل آخری وقت میں آیا کہ جانور خریدنا ہی ممکن نہ ہو تو گناہ نہیں ہے۔
قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی (بہار شریعت ۔)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area