Type Here to Get Search Results !

غیر سید کو سید بن کر لوگوں کو مرید کرنا کیسا ہے؟

(سوال نمبر ١٨٥)

غیر سید کو سید بن کر لوگوں کو مرید کرنا کیسا ہے؟ 

:---------------:

السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید اپنے آپ کو آل رسول کہتے ہیں جب کہ وہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں اب رہی بات کہ ہمارے یہاں کچھ لوگوں نے جلسے کے موقع پر ان سے بیعت کی یہ سمجھ کر کہ وہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن زید آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ کچھ اور ہیں اب جو لوگ بیعت ہوئے تھے انکی بیعت باقی ہے یا ختم ہو گئی بقول مرید کے کہ زید نے کہا میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں لیکن وہ سید نہیں ہیں انہوں نے جھوٹ بولا علمائے کرام و مفتیان عظام قرآن وحدیث کی روشنی میں تشریح فرماکر عند اللہ ماجور ہوں فقط وسلام

 سائل:- محمد امام الدین رضوی سہسرام ضلع مہوتری نیپال۔

 مقیم حال سعودی عربیہ بتاریخ 19 ربیع الاول شریف 1442ھجری

:--------------

نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين. 


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 


الجواب بعونہ تعالیٰ عز وجل 


مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔

(۱)  سنی صحیح العقیدہ ہو۔

(۲)  اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

(۳)  فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو

(۴)  اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔   (فتاوٰی رضویہ،ج ۲۱،  ص ۶۰۳)

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت کرے جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے 

تو ہرگز ایسے شخص کو مرشد بنا نا جائز نہیں کہ جنہیں اتنا علم بھی نہیں کہ نسب بدلنا کتنا بڑا گناہ کبیرہ ہے وہ کیوں کر مرشد کے لائق ہوسکتا ہے اور بھلا وہ کیا مریدین کی رہنمائی کرےگا وہ مرشد مرشد برحق نہیں بلکہ کوئی عام مولوی ہے لہذا ایسے لوگوں سے بیعت نہ ہو ورنہ یہ خود بھی ڈوبیں گے اور آپ کو بھی ڈبو دیں گے

جیسا کہ حدیث شریف میں ہے

عن عبداللہ بن عمر و قال قال رسول اللہﷺ ان الله لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رئوسا جھالا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا (مشکوۃ شریف جلد اول کتاب العلم صفحہ٣٣ )

اسلام میں نسب تبدیل کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور ایسا کرنے پر سخت وعید بھی آئی ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.

جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(بخاري، الصحيح، كتاب المناقب، باب نسبة اليمن إلى إسماعيل، 3: 1292، رقم: 3317، بيروت: دار ابن كثير اليمامة)(مسلم، الصحيح، كتاب الإيمان، باب بيان حال إيمان من رغب عن أبيه وهو يعلم، 1: 79، رقم: 61، دار إحياء التراث العربي)

اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

وَفِي الْحَدِيثِ تَحْرِيمُ الِانْتِفَاءِ مِنَ النَّسَبِ الْمَعْرُوفِ وَالِادِّعَاءِ إِلَى غَيْرِهِ وَقَيَّدَ فِي الْحَدِيثَ بِالْعِلْمِ وَلَا بُدَّ مِنْهُ فِي الْحَالَتَيْنِ إِثْبَاتًا وَنَفْيًا لِأَنَّ الْإِثْمَ إِنَّمَا يَتَرَتَّبُ عَلَى الْعَالِمِ بِالشَّيْءِ الْمُتَعَمِّدِ لَهُ.

اس حدیث میں کسی معروف نسب سے تعلق کا دعویٰ کرکے انتفاء و اغراض مقاصد حاصل کرنا حرام ہے، اور حرام اسی وقت ہوگا جب کوئی ایسا قصدا اور جانتے ہوئے کرے، کیونکہ گناہ کا ترتب تب ہی ہوگا جب اس کو جانتے ہوئے اور قصداً کیا جائے۔ (عسقلاني، فتح الباري، 6: 541، بيروت: دار المعرفة)

ایک حدیث میں ہے کہ ایسے شخص پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ انْتَسَبَ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اﷲ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(ابن ماجه، السنن، كتاب الحدود، باب من ادعى إلى غير أبيه أوتولى غير مواليه، 2: 870، رقم: 2609، بيروت: دار الفكر)

درج بالا روایات سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر اپنا نسب بدلنا اور خود کو اپنے اصلی نسب کی بجائے کسی اور سے منسوب کرنا حرام ہے۔ سوال میں مذکور شخص نے بھی اگر واقعتاً جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کیا ہے تو حرام عمل کیا ہے جس پر وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے۔

لہذا اس شخص پر صحیح نسب بیان کر نا ضروری ہے قبل توبہ و رجوع مرید بنا نا تو در کنار امامت و شہادت کے لائق بھی نہیں ۔ البتہ بعد توبہ و رجوع ، آگر مرشد کے شرعی شرط موجود ہے تو مرید و اقتداء صلات میں حرج نہیں، واضح ہو کہ مرشد کا ہونا، سید یعنی ال رسول کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جس شخص میں بھی شرائط مرشد ہو مرید ہو سکتے ہیں ۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب ۔


کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18سرہا سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔11/11/2020 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area