Type Here to Get Search Results !

فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت فتاوی رضویہ کے حوالے سے

 (سوال نمبر ١٢١) (قسط٢)


فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت فتاوی رضویہ کے حوالے سے

لَا یُنْکَرُ تَغَیُّرُ الْأَحْکَامِ بِتَغَیُّرِ الْأَزْمَانِ

نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين. ..  . .۔

آقا علیہ السلام کے زمانے میں جو احکام تبدیل ہوئے اور آج کے تغیر احوال سے بدلنے والے احکام میں فرق ہے، عہد رسالت میں جو احکام بدلے وہ علم الہی و علم رسول میں ایک خاص مدت تک کے لئے نافط ہوئے تھے اس لئے جب وہ مدت پوری ہو گئی تو حکم بدل گیا ،اسی بدلنے کو نسخ اور بدلے ہوئے حکم کو منسوخ کہتے ہیں، اور جس حکم جدید سے تبدیلی ہوئی اسے ناسخ کہتے ہیں، جیسا کہ قرآن میں اللہ رب العزت فرماتا ہے(جب کوئی ایت ہم منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے، ) اس آیت کے تحت مصنف خزائن العرفان رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ قرآن نے جب پہلی
شریعتو ں کو منسوخ فرمایا، تو کفار کو بہت توحش ہوا اور اس نے طعن کرنا شروع کیا، تب اللہ تعالی نے فرما یا منسوخ بھی میری طرف سے ہے،اور ناسخ بھی دونوں عین حکمت ہے، اور ناسخ کبھی منسوخ سے زیادہ مفید ہوتا ہے، اللہ تعالی پر ایمان رکھنے والے اس پر تردد نہیں کرتے،
جب ہم کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے دن سے رات، گرما سے سرما، جوانی سے بچپن بیماری سے تندرستی، بہار سے خزاں کو منسوخ فرماتا ہے، اور یہ سب اس کی قدرت کی دلائل ہیں،
نسخ حقیقت میں حکم ماضی کے مدت کا بیان ہوتا ہے، کہ وہ حکم اس مدت کے لئے تھا، اور عین حکمت تھا، نا فہم و فراست اس پر اعتراض کرتے ۔اہل کتاب کو یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں دنیوی کام شنبہ کے روز حرام نہیں تھے، پھر ان پر حرام ہوئے ،اسی طرح توریت میں حضرت نوح علیہ سلام کی امت کے لئے تمام چوپائے حلال تھے، اور دین موسوی میں بہت سے چوپائے حرام کر دئے گئے ۔۔(مجلس شرعی ص٤٦٤)

لَا یُنْکَرُ تَغَیُّرُ الْأَحْکَامِ بِتَغَیُّرِ الْأَزْمَانِ 

(زمانہ بدلنے سے اَحکام کا بدل جانا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے) جب ہم اس پر غور و خوض کرتے ہیں جس پر فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے اَئمۂ مجتہدین نے اپنی کتبِ فقہ میں باقاعدہ ابواب قائم کیے ہیں  اور اس اصول کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لیے عظیم نعمت اور برکت قرار دیتے ہیں قاضیان عظام اور مفتیانِ کرام کے لیے فیصلہ یا فتویٰ سنانے کے لیے ضروری قرار دئے  کہ انہیں اس علاقے
ملک یا طبقے کے معروضی حالات اور مخصوص واقعات کا علم ہو، جیسا کہ یہ معمہ اظہر من الشمس ہے اور اہل علم سے مخفی نہیں ہے جن کا مسئلہ زیرِ بحث ہوں ۔ اِسی طرح جس وقوعہ یا قضیہ کی نسبت عدل و اِنصاف کی فراہمی کے لیے حکم شرعی کا اِستنباط یا اِطلاق مقصود ہوں ، اس کے تمام وقائع، عوامل، محرکات اور جملہ ظاہر و مخفی متعلقات کا بجمیع وجوہ اِحاطہ و اِدراک بھی ناگزیر ہے، تاکہ ہر واقعہ کے اپنے مخصوص حالات و واقعات کی روشنی میں اس کے لیے متعلقہ حکم وضع کیا جاسکے۔ انسانی معاشرہ، مخصوص حالات اور قانون کا باہمی سہ جہتی رشتہ نہ جاننے کے باعث مفتیانِ کرام اور قاضیانِ عظّام میں غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے اسلامی قانون سازی یا اِطلاقِ حکم کا دائرۂ کار محدود ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر تبدیلی کی اِس گنجائش کو ختم کر دیا جائے تو شریعت جامد ہو کر رہ جائے گی۔‘
مضمون ابھی باقی ہے ۔

کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال. 
١٦/٩/٢٠٢٠/

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area