Type Here to Get Search Results !

حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ

حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اسمِ گرامی :- حسین۔
کنیت :- ابو عبداللہ۔
القاب :-
ولی، زکی، طیب، مبارک، ریحانۃ الرسولﷺ، سبط الرسولﷺ۔ شہید، سید، التابع المرضات اللہ۔
سلسلہ نسب: امام حسین بن امیرالمؤمنین علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم۔ والدہ کی طرف سے امام حسین بن سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا بنت سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺبن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم۔
ولادت باسعادت: آپ کی ولادت بروز منگل 4 شعبان المعظم 3 یا 4ھ بمطابق 8 جنوری 626ء کو مدینۃ المنورہ میں ہوئی۔
سیرت و خصائص: علم و عمل، زہد و تقوٰی، جود و سخا، شجاعت و قوت، اخلاق و مروّت، صبر و شکر، حلم و حیا وغیرہ صفات کمال میں بوجہ اکمل اور مہمان نوازی، غربا ءپروری اعانتِ مظلوم، صلۂ رحم، محبتِ فقراء و مساکین میں شہرہ آفاق تھے۔ پچیس حج پا پیادہ کیے، دن رات میں تین ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے، اور کثرت سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ آپ اتنے باجمال تھے کہ جب تاریکی میں بیٹھتے تو آپ کی پیشانی اور رخساروں کی روشنی سے راستے منور ہوجاتے تھے۔ آپ سینہ سے لے کر پاؤں تک مشابہ بہ جسم رسول پاکﷺ تھے۔
فضائل و مناقب: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"حسین منی وانا من الحسین احب اللہ من احب حسینا،حسین سبط من الاسباط"۔
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ تعالیٰ اس شخص کو محبوب رکھتا ہے، جو حسین سے محبت رکھے، حسین (میری) اولاد میں سے ایک فرزند ارجمند ہے۔ (جامع ترمذی:3774)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اللہم انی احبہ فاحبہ یعنی الحسین"۔
اے اللہ میں اس حسین سے محبت کرتا ہوں، تو بھی حسین سے محبت فرما۔ (مسند امام احمد بن حنبل:ج،5:105)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "من احب الحسین فقداحبنی" جس نے حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ (مسند امام احمد بن حنبل)
کون حسین: سید الشہداء، راکب دوشِ مصطفٰیﷺ، شہسوارِ کرب و بلا، شہزادہ گلگوں قبا، نواسہ امام الانبیاء، نورِ جانِ خیر النساء۔ پرتو ِشجاعت مرتضیٰ برادر حسنِ مجتبٰی امام عالی مقام حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ۔
آپ بلا شبہ سرخیل عابداں ہیں، اور ایسے عبادت گزار اور شب زندہ دار تھے۔ جو انتہائی بے کسی کے عالم میں بھی شبِ عاشورہ اپنے خیمہ میں خدائے لا یزال کی عبادت میں اس طرح گزاردی کہ دل میں خیال سو دو زیاں نہ تھا۔
حسین وہ عابد باکمال ہے جو اپنے جسم پر تیروں، تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم کھانے کے باوجود بارگاہِ ایزد ی میں تپتی ہوئی ریت پر اپنی جبین کو سجدے میں رکھ کر نہایت پر سکوں دکھائی دے رہا تھا۔ 
ابن زہراء وہ محسن اسلام و انسانیت ہے جو بے سرو سامانی کے عالم میں کئی دن کی بھوک اور پیاس کے باوجود ہزاروں دشمنوں کے مقابلے میں تن تنہا ڈٹ گیا۔ اور تیروں کی بارش، تلواروں کے طوفانی وار اور نیزوں کی چمکتی ہوئی ہزاروں نوکیں، جس کے پائے استقامت میں لغزش نہ لاسکیں۔ 
نواسۂ رسولﷺ، وہ قاری قرآن ہے، جس نے کوفے کے ستم کیش بازاروں میں، جفا کاروں کے جھر مٹ میں، اسلام کی شان و شوکت اور عظمت و وقار کا علم بلند کرتے ہوئے، جاں نثاروں کی طمانیت کی خاطر قرآن کی بڑائی اور آبرو کےلیے خون سے وضو کئے ہوئے، قرآن مجید کی اس طرح تلاوت فرمائی کہ مذہب کے چہرے پر نکھار آگیا، شیطانوں کے دل بجھ گئے، بے ایمانوں کی دنیا اجڑ گئی، دنیاوی سلطانوں کے منصوبے خاک میں مل گئے۔
سرترا نیزے پہ، جاری لب پہ قرآں واہ حسین
رو پڑے نوری یہ اندازِ تلاوت دیکھ کر
حسینیت و یزیدیت:
حضرت امام عالی مقام کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جد و جہد کا پیغام ہے۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کر لیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے۔یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ بھی اسلام کا نام لیتا تھا۔یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کرے۔ نام اسلام کا لے اورعمل کافروں والاہو۔ اسلام اور مسلمانوں سے دھوکہ و فریب یزیدیت کا نام ہے۔ یزید ہر دور میں ہوتا ہے۔ صرف چہرے بدلتے ہیں، کردار ایک ہی ہوتا ہے۔
حقیقت ِابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت اور اس کا مقابلہ کرو۔ یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کے لیے اگرچہ تمہیں مال، جان، اور اپنی اولاد کی قربانی ہی کیوں دینا پڑے۔ یزیدیت کا مقدر شکست ہے، اس کیلئے صرف جذبۂ صادق چاہیے۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
شہادت: بروز جمعۃ المبارک، 10 محرم الحرام 60ھ، بعض مؤرخین نے 61ھ بھی لکھا ہے، بمطابق اکتوبر 679ء کو مقامِ کربلا پر سجدے کی حالت میں جامِ شہادت نوش کیا۔ پر انوار "کربلا" عراق میں ہے۔
(آپ کے ساتھ بہتر 72 دوسرے جاں نثار بھی شہید ہوئے تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کے بھائی، بھتیجے، اور دوسرے عزیز بھی تھے جو بھوکے پیاسے اور بے سروسامانی میں آپ کے ساتھ ہی شہید ہوئے۔)
ماخذ و مراجع: تاریخ الخلفاء۔ خزینۃ الاصفیاء۔ آل رسولﷺ
۔ مسندِ امام احمد۔ جامع ترمذی۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area