Type Here to Get Search Results !

خواتین کو قبروں پر جانا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 6038)
خواتین کو قبروں پر جانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ  
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ
اعلی حضرت کا فتویٰ کہ خواتین جو قبروں پر جاتی ہیں ان پر لعنت ہے تو کیا یہ اجتہادی مسٔلہ ہے یا دلیل بھی ہے اور اگر ہے تو وضاحت فرمائیں کیوں کہ جب حضور کی حدیث موجود ہے کہ پہلے میں نے منع فرمایا اب اجازت دیتا ہوں کہ زیارات قبور پر جایا کرو تو پھر ایسا فتویٰ کیوں عطا فرمایا ؟ اگر عورت با پردہ محرم کے ساتھ جاتی ہے واویلہ رونا پیٹنا نہیں مچاتی اور مرد و زن کا اختلاط بھی نہ ہو اور عبرت یا فیض حاصل کرنے کے لئے جائے تو ایسی عورت کے لے کیا حکم ہے؟ اعلی حضرت کا فتویٰ کیا ہے ؟
سائلہ:- بنت عباس دارلسلام ٹوبہ ٹیک سنگھ فقہی سؤال و جواب لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
عورتوں کی زیارتِ قبور کے بابت علماء فقہ کا اختلاف ہے ۔
میرا موقف یہ ہے کہ اپنے والدین کی قبریں اگر نزدیک ہوں اور انے جانے میں کوئی خطرہ نہ ہو یا محرم کے ساتھ جائیں تو تو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اسی طرح مزارات پر اگر غیر شرعی امور نہ ہوں اور مرد و زن کا اختلاط نہ ہوں جیسا کہ سوال میں ہے پھر محرم کے ساتھ جانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے ۔اگر معاملہ اس کے برعکس ہے پھر جانا جائز نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کا موقف حرام کا ہے ۔
تفصیل نیچے ملاحظہ فرمائیں ۔
اس موضوع پر میرا ایک مضمون ہے اس کا بھی مطالعہ کیا جائے ۔
حدیث پاک کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا۔
 اس سلسلے میں فقہائے متقدمین کے درمیان اختلافات ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کو مطلق رکھا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لئے اجازت ہے۔ بعض لوگوں نے فرمایا۔صرف مردوں کے لئے اجازت ہے، عورتوں کے لئے اجازت نہیں۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا مسلک اس طرح ظاہر کیا ہے: حرام، حرام حرام، یہ نہ پوچھ کہ جانے میں کیا ثواب ہے، یہ پوچھ کہ جب وہ مزار کی زیارت کے ارادے سے گھر سے قدم نکالتی ہے تو اسی وقت سے اللہ اور اس کے رسول اور اس کے فرشتے کی لعنت شروع ہوتی ہے، جب تک کہ واپس پھر اپنے گھر میں قدم نہ رکھے۔
فتاویٰ رضویہ میں عورتوں کے قبرستان جانے کے متعلق فرماتے ہیں اصح یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں۔(فتاویٰ رضویہ ج 9 ، ص 537 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور) 
مزید فرماتے ہیں 
(اقول) میں کہتا ہوں قبورِ اقرباء پر خصوصاً بحال قرب عہد ممات تجدید حزن لازم نساء ہے اور مزاراتِ اولیاء پر حاضری میں احد الشناعتین ( یعنی دو خرابیوں میں سے ایک ) کا اندیشہ یا ترکِ ادب یا ادب میں افراط ناجائز تو سبیل اطلاق منع ہے ولہٰذا غنیہ میں کراہت پر جزم فرمایا البتہ حاضری و خاکبوسی آستان عرش نشان سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اعظم المندوبات ، بلکہ قریبِ واجبات ہے ، اس سے نہ روکیں گے اور تعدیلِ ادب سکھائیں گے (فتاویٰ رضویہ ج 9 ص 538 رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
بہار شریعت میں ہے
عورتوں کے لیے بعض علماء نے زیارتِ قبور کو جائز بتایا در  مختار میں یہی قول اختیار کیا مگر عزیزوں کی قبور پر جائیں گی ، تو جزع و فزع کریں گی ، لہٰذا ممنوع ہے اور صالحین کی قبور پر برکت کے لیے جائیں تو بوڑھیوں کے لیے حرج نہیں اور جوانوں کے لیے ممنوع  اور اسلم یہ ہے کہ عورتیں مطلقاً منع کی جائیں کہ اپنوں کی قبور کی زیارت میں تو وہی جزع و فزع ہے اور صالحین کی قبور پر یا تعظیم میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادبی کریں گی کہ عورتوں میں یہ دونوں باتیں بکثرت پائی جاتی ہیں (بہار شریعت)
مذکورہ دونوں عبارات سے معلوم ہوا جہاں مذکورہ خرافات نہیں وہاں جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے 
مصنف جنتی زیور رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی عورتیں ماں باپ کی قبروں کی زیارت کے لئے بھی جایاکریں ۔ان کے مزاروں پر فاتحہ پڑھیں ۔ سلام کریں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں اس سے ماں باپ کی اَرواح کو خوشی ہوگی اور فاتحہ کا ثواب فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کریں گے اور ماں باپ خوش ہو کر اپنے بیٹے بیٹیوں کو دعائیں دیں گے۔ (جنتی زیور ص۹۴)   
کما فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 
(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210)
واضح رہے کہ شارع علیہ السلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی زیارت قبور کی اجازت عنایت فرمائی۔ آج بھی کوئی عورت یا مرد دورِ جاہلیت کی طرح قبروں پر جا کر غیر شرعی حرکات کرے تو اس کے لئے ممانعت ہے، ورنہ اجازت ہے
حضرت برہان ملت مولانا برہان الحق جبل پوری نے ایک بہت مفصل فتویٰ رسالے کی شکل میں لکھا کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے اور اس رسالے کو اصلاح کے لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا۔ میں نے وہ رسالہ تو نہیں دیکھا لیکن اعلیٰ حضرت کی تحریر دیکھی جس میں اس کا تذکرہ ہے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ برہان میاں نے عورتوں کے مزارات پر جانے کے تعلق سے جو اپنا رسالہ لکھا اور مجھے اصلاح کے لئے بھیجا، ایک مدت تک تو موقع مل ہی نہیں سکا کہ دیکھتا، بعد میں دیکھا، جہاں استدلال میں کوئی کمی تھی، اس کی تصحیح کردی۔
عورتوں کے مزارات پر جانے کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جو خود حرام لکھتے اور سمجھتے ہیں، اس کے خلاف لکھنے والے کی اصلاح و تصحیح فرمائی اور اضافہ و تکمیل اور تصدیق بھی فرمائی، مگر اس کے بعد اپنا مسلک ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مگر بحال زمانہ میں اسے ناجائز و حرام سمجھتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی نفسہ جائز تھا۔ مگر اس زمانہ میں مقصد شرع کے خلاف ہورہا تھا، اس لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ناجائز قرار دیا لیکنئ چونکہ فی نفسہ جائز تھا، اسی لئے ڈانٹنے اور توبہ کرانے کے بجائے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس رسالہ کی تکمیل فرمائی۔ حالانکہ مولانا برہان الحق، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و شاگرد تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ چاہتے تو انہیں ڈانٹ سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجیب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لہان 18خادم دارالافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔
31/0/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area