(سوال نمبر 6008)
عورت کا رحم کرایہ پر لیکر اس میں کسی اور مردو کا مادہ منویہ رکھ کر بچہ پیدا کروانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ سروگیسی کیا ہے اور اسکی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
سائل:- خادم حسین کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
سروگیسی Surrogacy کہ جس میں عورت کا رحم کرایہ پر لیکر اس میں کسی اور مردو عورت کا مادہ منویہ رکھ کر بچہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ شرعا جائز نہیں ہے۔جس کی وجوہات درج ذیل ہیں
١/ اس صورت میں عورت کا رحم کرائے پر یا جارہا ہے جبکہ عورت کے رحم کو کرائے پر لینا شرعا جائز نہیں ہے ۔
٢/ اس صورت میں شوہر کے علاوہ کسی اور کا نطفہ اپنے رحم میں رکھا جاتاہے ،اوریہ ناجائز و حرام ہے۔
٣/ نیز اس میں بلاوجہ شرعی ،دوسرے کے سامنے اپنا سترکھولنا اوردوسرے کاا سے دیکھنا اور اسے چھونا وغیرہ پائے جاتے ہیں اوریہ سب کام ناجائز حرام ہیں ۔
القرآن الکریم میں ہے
للَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ. أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ (القرآن الکریم: (الشوری، الایة 49)
اللہ کا فرمان ہے
والذين هم لفروجهم حافظونo إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم فإنهم غير ملومينo فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون (المؤمنون، الایة: 5- 7)
حدیت پاک میں ہے
ان رسول الله صلي الله عليه وسلم نهي عن ثمن الكلب و كسب البغي و حلوان الكاهن( مشکوۃ المصابیح: (باب الاستبراء، الفصل الثانی)
عورت کا رحم کرایہ پر لیکر اس میں کسی اور مردو کا مادہ منویہ رکھ کر بچہ پیدا کروانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان دین اس مسئلہ میں کہ سروگیسی کیا ہے اور اسکی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
سائل:- خادم حسین کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
سروگیسی Surrogacy کہ جس میں عورت کا رحم کرایہ پر لیکر اس میں کسی اور مردو عورت کا مادہ منویہ رکھ کر بچہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ شرعا جائز نہیں ہے۔جس کی وجوہات درج ذیل ہیں
١/ اس صورت میں عورت کا رحم کرائے پر یا جارہا ہے جبکہ عورت کے رحم کو کرائے پر لینا شرعا جائز نہیں ہے ۔
٢/ اس صورت میں شوہر کے علاوہ کسی اور کا نطفہ اپنے رحم میں رکھا جاتاہے ،اوریہ ناجائز و حرام ہے۔
٣/ نیز اس میں بلاوجہ شرعی ،دوسرے کے سامنے اپنا سترکھولنا اوردوسرے کاا سے دیکھنا اور اسے چھونا وغیرہ پائے جاتے ہیں اوریہ سب کام ناجائز حرام ہیں ۔
القرآن الکریم میں ہے
للَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ. أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ (القرآن الکریم: (الشوری، الایة 49)
اللہ کا فرمان ہے
والذين هم لفروجهم حافظونo إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم فإنهم غير ملومينo فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون (المؤمنون، الایة: 5- 7)
حدیت پاک میں ہے
ان رسول الله صلي الله عليه وسلم نهي عن ثمن الكلب و كسب البغي و حلوان الكاهن( مشکوۃ المصابیح: (باب الاستبراء، الفصل الثانی)
حجة الله البالغة میں ہے
منها: معرفة براءة رحمها من ماءه لئلا تختلط الانساب فان النسب احد ما يتشاح به و يطلبه العقلاء وهو من خواص نوع الانسان و مما امتاز به من سائر الحيوان"(حجة الله البالغة: (106/2)
الفقہ الاسلامی و ادلتہ
میں ہے
التلقیح الصناعی:ہو استدخال المنی لرحم المرأۃ بدون جماع. فإن کان بماء الرجل لزوجتہ، جاز شرعاً، إذ لا محذور فیہ، بل قد یندب إذا کان ہناک ما نع شرعی من الاتصال الجنسی.وأما إن کان بماء رجل أجنبی عن المرأۃ، لا زواج بینہما، فہو حرام؛ لأنہ بمعنی الزنا الذی ہو إلقاء ماء رجل فی رحم امرأۃ، لیس بینہما زوجیۃ. ویعد ہذا العمل أیضا منافیاً للمستوی الإنسانی، ومضارعاً للتلقیح فی دائرۃ النبات والحیوان"
(الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (269/4، ط: شام)
تحفة الفقہاء میں ہے
وَلاَ یُبَاح الْمس وَالنَّظَر الی مَا بَین السّرَّة وَالرکبَة الاَّ في حَالة الضَّرُورَة بأن کَانت الْمَرْأةُ خَتّانةً تختن النّساء أو کَانت تنظر الَی الْفرج لمعْرفة الْبکارة أو کَانَ في موضع العورة قرح أو جرح یحْتَاج الی التَّداوی وَان کانَ لا یعرفُ ذلک الاّ الرجل یکشف ذلک الخ
(تحفة الفقہاء: (کتاب الاستحسان، 34/3، ط: دار الکتب العلمیة)
فتح القدیر میں ہے
"ان الحبل قد یکون بإدخال الماء الفرج دون جماع فنادر"
(فتح القدیر: (315/4)
چونکہ خالق کائنات نے انسان کو اپنی حکمت کے ساتھ اچھے ڈھانچے میں ضرورت کی تمام چیزیں دیکر پیدا فرمایا ہے٬ اور انسانیت کی تخلیق کیلئے نکاح کو حلال اور پاکیزہ طریقہ تجویز فرمایا ہے٬ جوکہ انسانی نسب کے تحفظ اوربقاء کا ضامن ہے٬ اللہ رب العزت نے اولاد کے حصول کے سلسلے میں بیویوں کو بمنزلہ کھیت قرار دیا اور ارشاد فرمایا
نِسَاؤكمْ حَرْثٌ لًَكُمْ فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنّٰى شِئْتُمْ ( البقرة: ٢٢٣)
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں جس طرح چاہو ان کے پاس جاؤ
جس طرح کسی دوسرے کی کھیت میں کاشت کاری کرنا جائز نہیں٬ اسی طرح کسی اور عورت سے حصول اولاد کی کوشش کرنا بھی درست نہیں٬
اقا علیہ السلام نے فرمایا
لا يحل لامرئ يؤمن بالله و اليوم الاخر ان يسقي ماءه زرع غيره (مشكوة ص ٢٩٠)
جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر یقین رکھتا ہے٬ اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اپنا پانی (مادہ منویہ) دوسرے کے کھیت (اجنبی خاتون) میں ڈالے
مذکورہ بالا نصوص اور اس قسم کے دیگر نصوص سے معلوم ہوتا کہ شریعت کی نظر میں نسلِ انسانی کی بقا اور حصولِ اولاد کا فطری طریقہ نکاح ہے٬ اور اپنی منکوحہ یا مملوکہ کے علاوہ کسی اور خاتون کے ذریعہ اولاد کے حصول کی کوشش کرنا٬ چاہے کسی بھی طریقے سے ہو٬ جائز نہیں ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨ خادم دارالافتاء البركاتي فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔٢٨/٠٧/٢٠٢٣
منها: معرفة براءة رحمها من ماءه لئلا تختلط الانساب فان النسب احد ما يتشاح به و يطلبه العقلاء وهو من خواص نوع الانسان و مما امتاز به من سائر الحيوان"(حجة الله البالغة: (106/2)
الفقہ الاسلامی و ادلتہ
میں ہے
التلقیح الصناعی:ہو استدخال المنی لرحم المرأۃ بدون جماع. فإن کان بماء الرجل لزوجتہ، جاز شرعاً، إذ لا محذور فیہ، بل قد یندب إذا کان ہناک ما نع شرعی من الاتصال الجنسی.وأما إن کان بماء رجل أجنبی عن المرأۃ، لا زواج بینہما، فہو حرام؛ لأنہ بمعنی الزنا الذی ہو إلقاء ماء رجل فی رحم امرأۃ، لیس بینہما زوجیۃ. ویعد ہذا العمل أیضا منافیاً للمستوی الإنسانی، ومضارعاً للتلقیح فی دائرۃ النبات والحیوان"
(الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (269/4، ط: شام)
تحفة الفقہاء میں ہے
وَلاَ یُبَاح الْمس وَالنَّظَر الی مَا بَین السّرَّة وَالرکبَة الاَّ في حَالة الضَّرُورَة بأن کَانت الْمَرْأةُ خَتّانةً تختن النّساء أو کَانت تنظر الَی الْفرج لمعْرفة الْبکارة أو کَانَ في موضع العورة قرح أو جرح یحْتَاج الی التَّداوی وَان کانَ لا یعرفُ ذلک الاّ الرجل یکشف ذلک الخ
(تحفة الفقہاء: (کتاب الاستحسان، 34/3، ط: دار الکتب العلمیة)
فتح القدیر میں ہے
"ان الحبل قد یکون بإدخال الماء الفرج دون جماع فنادر"
(فتح القدیر: (315/4)
چونکہ خالق کائنات نے انسان کو اپنی حکمت کے ساتھ اچھے ڈھانچے میں ضرورت کی تمام چیزیں دیکر پیدا فرمایا ہے٬ اور انسانیت کی تخلیق کیلئے نکاح کو حلال اور پاکیزہ طریقہ تجویز فرمایا ہے٬ جوکہ انسانی نسب کے تحفظ اوربقاء کا ضامن ہے٬ اللہ رب العزت نے اولاد کے حصول کے سلسلے میں بیویوں کو بمنزلہ کھیت قرار دیا اور ارشاد فرمایا
نِسَاؤكمْ حَرْثٌ لًَكُمْ فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنّٰى شِئْتُمْ ( البقرة: ٢٢٣)
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں جس طرح چاہو ان کے پاس جاؤ
جس طرح کسی دوسرے کی کھیت میں کاشت کاری کرنا جائز نہیں٬ اسی طرح کسی اور عورت سے حصول اولاد کی کوشش کرنا بھی درست نہیں٬
اقا علیہ السلام نے فرمایا
لا يحل لامرئ يؤمن بالله و اليوم الاخر ان يسقي ماءه زرع غيره (مشكوة ص ٢٩٠)
جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر یقین رکھتا ہے٬ اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اپنا پانی (مادہ منویہ) دوسرے کے کھیت (اجنبی خاتون) میں ڈالے
مذکورہ بالا نصوص اور اس قسم کے دیگر نصوص سے معلوم ہوتا کہ شریعت کی نظر میں نسلِ انسانی کی بقا اور حصولِ اولاد کا فطری طریقہ نکاح ہے٬ اور اپنی منکوحہ یا مملوکہ کے علاوہ کسی اور خاتون کے ذریعہ اولاد کے حصول کی کوشش کرنا٬ چاہے کسی بھی طریقے سے ہو٬ جائز نہیں ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨ خادم دارالافتاء البركاتي فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔٢٨/٠٧/٢٠٢٣