بسم اللہ الرحمن الرحیم
اصلی دیوبندی اور عرفی دیوبندی کسے کہتے ہیں؟
اور ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
کیا ان دونوں پر حکم شرع ایک جیسا ہے یا فرق ہے؟
یاد رہے کہ اصلی دیوبندی اور عرفی دیوبندی یہ تقسیم ہمارے کبار علماء اہل سنت کے فتواجات سے مستفاد ہے جن میں میرے علم کے مطابق
(1) نائب مفتی اعظم ہند شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ
(2) علامہ سید احمد کاظمی رحمت اللہ علیہ .....
(3) شاگرد و خلیفہ اعلی حضرت ملک العلماء حضرت محمد ظفر الدین قادری برکاتی رضوی
(4) مفسر قرآن تفسیر تبیان القران شارح صحیح مسلم حضرت علامہ غلام رسول سعیدی۔
(1) شارح بخاری رحمت اللہ علیہ عرفی دیوبندی کے بابت فرماتے ہیں دیوبندی عوام جسے کفریہ عبارت کا علم نہیں وہ اگرچہ اکابرین دیابنہ کو اپنا پیشوا اور بزرگ مانتے ہوں وہ کافر نہیں حتی کہ آپ لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوامی اسی طرح کے ہیں زیادہ تر کہ کر آپ نے بہت سے تنازعات کو رفع کردیا۔
پھر آپ نے عقل کے اندھوں کے لیے مزید وضاحت کردی لکھتے ہیں اگرچہ دیوبمدی عوام معمولات اہل سنت کو بدعت اور حرام کیتے ہوں پھر بھی وہ حقیقی و اصلی دیوبندی نہیں آپ نے نابینا کے لیے مزید تشریح کردی اگرچہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہے اور لوگ سب بھی دیوبندی کہے پھر بھی وہ حکم کفر و ارتداد نہیں جو عناصر اربعہ پر ہے۔
(2) علامہ سید علامہ کاظمی فرماتے ہیں ہم کسی دیوبند یا لکھنئو والے کو کافر نہیں کہتے ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جن کا عقیدہ عناصر اربعہ کاسا ہے ان کے علاوہ ہم کسی مدعی اسلام کو کافر نہیں کہتے آپ نے اگے شدت پسند عناصر کی آنکھیں کھول دی آپ فرماتے ہیں جنہیں ٹٹول کر ہم نے تکفیر کی ہے وہ بہت قلیل معدود افراد ہیں باقی کوئی دیوبند کا رینے والا یا ندوی کافر نہیں ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔
اب آپ اندازہ لگائیں معدود افراد بہت قلیل کے علاوہ پوری جماعت کیا ہے تو جان لیں وہ وہی ہے جن کے بارے میں شارح بخاری فرماتے ہیں یہ جماعت میں رہ کر بھی عرفی ہیں
(3) شاگرد و خلیفہ ملک العلماء فرماتے ہیں محمد بن عبد الوہاب اور اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے ہاں بعض اقوال شان اسلام سے گرے تھے مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین نے ان دونوں کو اور ان کے ہم خیالوں کی کفر نہ کی بد مذہب گمراہ کہ سکتے ہیں خیالات عقیدہ اہل سنت نہ ہو نے کی وجہ سے۔
(4) صاحب تفسیر تبیان القران فرماتے ہیں جن مسائل میں انہیں شبہات واقع ہوئے اور دلائل سے اپنی رائے کو حق سمجھا اور علمائے اہل سنت کی دلائل ان تک نہیں پہنچ سکے وہ عناصر اربعہ کے حکم کفر میں داخل نہیں یا پہوچنے کے بعد بھی ان کا شرح صدر نہ ہو سکا ان کے شبہات باقی ہیں پھر وہ معذور ہیں۔ان پر حکم کفر نہیں۔
(5) بلکہ فتاویٰ رضویہ میں سوال ہوا ندوی عالم کی اقتدا میں نماز پڑھنا کیسا ہے
آپ فرماتے ہیں
حسام الحرمین پڑھ سنایا جائے قبول کرے فبہا ورنہ اصلی ہے باقی مسائل عرس و فاتحہ فروعی ہیں۔۔
یہی تشریح و توضیح تو قاضی نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی مرکزی اداریہ شرعیہ کاٹھمانڈو نیپال نے اپنی ایک ویڈیو میں کئے ہیں۔
قارئین انصاف سے بتائیں جو عامی عوام الناس جنہیں کچھ خبر ہی نہیں ان پر اصل کا سا حکم نافذ کرنا یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے خود اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے من حیث المجموع کفر و ارتداد کا فتوی نہیں دیا بلکہ من حیث الافراد آپ نے فتوی صادر فرمایا ہے۔۔
اب ہمارے اکابرین کے اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) فتاویٰ شارح بخاری میں ہے
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
(فتاوی شارح بخاری ،جلد سوم ،ص۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
فتاوی شارح بخاری میں ہے رہ گئے وہ لوگ جو ان چاروں کے کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں۔ انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں ۔ وہ صرف دیوبندی مولویوں کی ظاہری اسلامی صورت،ان کی نماز، ان کے روزوں کو دیکھ کر انہیں عالم، مولانا جانتے ہیں۔ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام جانتے ہیں۔وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں۔اگر چہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں،اور دوسرے لوگ بھی ان کو دیوبندی کہتے ہوں ( ج دوم:ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)
اسی میں ہے
اس لیے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہو، لوگ بھی اس کو دیوبندی کہتے ہوں، وہ ان چاروں علمائے دیوبندکو اپنا مقتدا وپیشوا بھی مانتا ہو،حتی کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو،مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تووہ حقیقت میں دیوبندی نہیں۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے،یا اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے“۔ اھ
اصلی دیوبندی اور عرفی دیوبندی کسے کہتے ہیں؟
اور ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
کیا ان دونوں پر حکم شرع ایک جیسا ہے یا فرق ہے؟
یاد رہے کہ اصلی دیوبندی اور عرفی دیوبندی یہ تقسیم ہمارے کبار علماء اہل سنت کے فتواجات سے مستفاد ہے جن میں میرے علم کے مطابق
(1) نائب مفتی اعظم ہند شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ
(2) علامہ سید احمد کاظمی رحمت اللہ علیہ .....
(3) شاگرد و خلیفہ اعلی حضرت ملک العلماء حضرت محمد ظفر الدین قادری برکاتی رضوی
(4) مفسر قرآن تفسیر تبیان القران شارح صحیح مسلم حضرت علامہ غلام رسول سعیدی۔
(1) شارح بخاری رحمت اللہ علیہ عرفی دیوبندی کے بابت فرماتے ہیں دیوبندی عوام جسے کفریہ عبارت کا علم نہیں وہ اگرچہ اکابرین دیابنہ کو اپنا پیشوا اور بزرگ مانتے ہوں وہ کافر نہیں حتی کہ آپ لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوامی اسی طرح کے ہیں زیادہ تر کہ کر آپ نے بہت سے تنازعات کو رفع کردیا۔
پھر آپ نے عقل کے اندھوں کے لیے مزید وضاحت کردی لکھتے ہیں اگرچہ دیوبمدی عوام معمولات اہل سنت کو بدعت اور حرام کیتے ہوں پھر بھی وہ حقیقی و اصلی دیوبندی نہیں آپ نے نابینا کے لیے مزید تشریح کردی اگرچہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہے اور لوگ سب بھی دیوبندی کہے پھر بھی وہ حکم کفر و ارتداد نہیں جو عناصر اربعہ پر ہے۔
(2) علامہ سید علامہ کاظمی فرماتے ہیں ہم کسی دیوبند یا لکھنئو والے کو کافر نہیں کہتے ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جن کا عقیدہ عناصر اربعہ کاسا ہے ان کے علاوہ ہم کسی مدعی اسلام کو کافر نہیں کہتے آپ نے اگے شدت پسند عناصر کی آنکھیں کھول دی آپ فرماتے ہیں جنہیں ٹٹول کر ہم نے تکفیر کی ہے وہ بہت قلیل معدود افراد ہیں باقی کوئی دیوبند کا رینے والا یا ندوی کافر نہیں ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔
اب آپ اندازہ لگائیں معدود افراد بہت قلیل کے علاوہ پوری جماعت کیا ہے تو جان لیں وہ وہی ہے جن کے بارے میں شارح بخاری فرماتے ہیں یہ جماعت میں رہ کر بھی عرفی ہیں
(3) شاگرد و خلیفہ ملک العلماء فرماتے ہیں محمد بن عبد الوہاب اور اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے ہاں بعض اقوال شان اسلام سے گرے تھے مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین نے ان دونوں کو اور ان کے ہم خیالوں کی کفر نہ کی بد مذہب گمراہ کہ سکتے ہیں خیالات عقیدہ اہل سنت نہ ہو نے کی وجہ سے۔
(4) صاحب تفسیر تبیان القران فرماتے ہیں جن مسائل میں انہیں شبہات واقع ہوئے اور دلائل سے اپنی رائے کو حق سمجھا اور علمائے اہل سنت کی دلائل ان تک نہیں پہنچ سکے وہ عناصر اربعہ کے حکم کفر میں داخل نہیں یا پہوچنے کے بعد بھی ان کا شرح صدر نہ ہو سکا ان کے شبہات باقی ہیں پھر وہ معذور ہیں۔ان پر حکم کفر نہیں۔
(5) بلکہ فتاویٰ رضویہ میں سوال ہوا ندوی عالم کی اقتدا میں نماز پڑھنا کیسا ہے
آپ فرماتے ہیں
حسام الحرمین پڑھ سنایا جائے قبول کرے فبہا ورنہ اصلی ہے باقی مسائل عرس و فاتحہ فروعی ہیں۔۔
یہی تشریح و توضیح تو قاضی نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی مرکزی اداریہ شرعیہ کاٹھمانڈو نیپال نے اپنی ایک ویڈیو میں کئے ہیں۔
قارئین انصاف سے بتائیں جو عامی عوام الناس جنہیں کچھ خبر ہی نہیں ان پر اصل کا سا حکم نافذ کرنا یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے خود اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے من حیث المجموع کفر و ارتداد کا فتوی نہیں دیا بلکہ من حیث الافراد آپ نے فتوی صادر فرمایا ہے۔۔
اب ہمارے اکابرین کے اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) فتاویٰ شارح بخاری میں ہے
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
(فتاوی شارح بخاری ،جلد سوم ،ص۳۳۰ ناشر دائرۃ البرکات گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳)
فتاوی شارح بخاری میں ہے رہ گئے وہ لوگ جو ان چاروں کے کفریات میں سے کسی ایک پر مطلع نہیں۔ انہیں قطعی یقینی اطلاع نہیں ۔ وہ صرف دیوبندی مولویوں کی ظاہری اسلامی صورت،ان کی نماز، ان کے روزوں کو دیکھ کر انہیں عالم، مولانا جانتے ہیں۔ان کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ معمولات اہل سنت کو بدعت وحرام جانتے ہیں۔وہ حقیقت میں دیوبندی نہیں اور ان کا یہ حکم نہیں۔اگر چہ وہ اپنے آپ کو دیوبندی کہتے ہیں،اور دوسرے لوگ بھی ان کو دیوبندی کہتے ہوں ( ج دوم:ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)
اسی میں ہے
اس لیے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہو، لوگ بھی اس کو دیوبندی کہتے ہوں، وہ ان چاروں علمائے دیوبندکو اپنا مقتدا وپیشوا بھی مانتا ہو،حتی کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو،مگر ان چاروں کے مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں تووہ حقیقت میں دیوبندی نہیں۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہے،یا اس کی نماز جنازہ پڑھنی کفر ہے“۔ اھ
(فتاویٰ شارح بخاری جلددوم ص 389-دائرۃ البرکات گھوسی)
٢/ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں : ہم کسی دیوبند یا لکھنووالے کو کافر نہیں کہتے ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومحبوبان ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں ‘ اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے گستاخیوں سے توبہ نہیں کی ،نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو اھل حق ‘ مومن ‘ اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں اور بس ‘ ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی ‘ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر ان کو ٹٹولا جائے تو وہ بہت قلیل اور معدودافراد ہیں ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ لیگی نہ ندوی ‘ ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔
٢/ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں : ہم کسی دیوبند یا لکھنووالے کو کافر نہیں کہتے ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے معاذ اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ومحبوبان ایزدی کی شان میں صریح گستاخیاں کیں ‘ اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے گستاخیوں سے توبہ نہیں کی ،نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو اھل حق ‘ مومن ‘ اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں اور بس ‘ ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی ‘ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے اگر ان کو ٹٹولا جائے تو وہ بہت قلیل اور معدودافراد ہیں ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ لیگی نہ ندوی ‘ ہم سب مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔
(مقالات کا ظمی ج ٢ ص ٢٥٩۔ ٢٥٨)
اور بعض اعتقادی مسائل میں شبہ کی وجہ سے اختلاف کرتے ہیں مثلا علم غیب اور تصرف میں ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں کرتے یا بدعت حسنہ کا انکار کرتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا اطلاق نہیں کرتے یا استمداد اور ندائے غیر اللہ کو ناجائز کہتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کی وسعت آپ کے معجزانہ تصرفات اور آپ کے علمی روحانی اور بعض مواقع پر حسی نورانیت کے قائل ہیں ‘ آپ کی حیات کے معتقد ہیں اور قبر انور پر آپ سے شفاعت طلب کرنے اور یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنے کے معتقد ہیں، ان پر کفر کا حکم نہیں ہے ان مسائل میں اختلاف محض فروعی ہے جیسے بعض امورائمہ ثلاثہ کے نزدیک ناجائز ہیں اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک جائز ہیں یا اس کے برعکس۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٣ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ سنی درالاشاعت ‘ لائل پور بحوالہ تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرةآیت نمبر 113)
اور بعض اعتقادی مسائل میں شبہ کی وجہ سے اختلاف کرتے ہیں مثلا علم غیب اور تصرف میں ذاتی اور عطائی کا فرق نہیں کرتے یا بدعت حسنہ کا انکار کرتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا اطلاق نہیں کرتے یا استمداد اور ندائے غیر اللہ کو ناجائز کہتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کی وسعت آپ کے معجزانہ تصرفات اور آپ کے علمی روحانی اور بعض مواقع پر حسی نورانیت کے قائل ہیں ‘ آپ کی حیات کے معتقد ہیں اور قبر انور پر آپ سے شفاعت طلب کرنے اور یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنے کے معتقد ہیں، ان پر کفر کا حکم نہیں ہے ان مسائل میں اختلاف محض فروعی ہے جیسے بعض امورائمہ ثلاثہ کے نزدیک ناجائز ہیں اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک جائز ہیں یا اس کے برعکس۔
(فتاویٰ رضویہ ج ٣ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ سنی درالاشاعت ‘ لائل پور بحوالہ تفسیر تبیان القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرةآیت نمبر 113)
(3) ملک العلما، بہاری، حضرت محمد ظفر الدین قادری برکاتی رضوی شاگرد و خلیفہ ،اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
محمد بن عبد الوھاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ,
صرف گمراہ اور بدمذہب کہا ,,,,کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہئے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے
اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے مگر اس کے خیالات مطابق عقیدہ اہلسنت نہیں ,اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے ,
(فتاویٰ ملک العلما کتاب السیر صفحہ ۲۲۹ )
(4) مصنف تفسیر تبیان القران رحمة الله عليه فرماتے ہیں
جن مسائل اعتقادیہ میں ان فرقوں کو شبہات واقع ہوئے اور انہوں نے دلائل سے اپنی رائے کو حق سمجھا ‘ اور ان شبہات کو دور کرنے کے لئے علماء اہل سنت نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچ سکے وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں یا جن لوگوں تک وہ دلائل پہنچ گئے لیکن ان دلائل سے ان کا شرح صدر نہیں ہوسکا اور ہنوز ان کے شہبات باقی رہے ‘ وہ بھی معذور ہیں لیکن جن لوگوں پر حجت تمام ہوگئی اور وہ محض کج بحثی اور ہٹ دھرمی سے اپنے باطل موقف پر ڈٹے رہے تو اگر ان کا موقف کسی کفر کو مستلزم ہے تو وہ دائما دوزخ میں رہیں گے ‘ اور اگر ان کا موقف کسی گمراہی کو مستلزم ہے تو وہ دوزخ میں دخول کے مستحق ہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے بحوالہ تفسیر تبیان القرآن - (سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 113)
(5) فتاویٰ رضویہ میں ہے
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے (حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)
(فتاویٰ رضویہ ج 29 ص 33 مکتبہ المدینہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔٢٩/٠٧/٢٠٢٣
محمد بن عبد الوھاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ,
صرف گمراہ اور بدمذہب کہا ,,,,کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہئے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے
اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے مگر اس کے خیالات مطابق عقیدہ اہلسنت نہیں ,اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے ,
(فتاویٰ ملک العلما کتاب السیر صفحہ ۲۲۹ )
(4) مصنف تفسیر تبیان القران رحمة الله عليه فرماتے ہیں
جن مسائل اعتقادیہ میں ان فرقوں کو شبہات واقع ہوئے اور انہوں نے دلائل سے اپنی رائے کو حق سمجھا ‘ اور ان شبہات کو دور کرنے کے لئے علماء اہل سنت نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچ سکے وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں یا جن لوگوں تک وہ دلائل پہنچ گئے لیکن ان دلائل سے ان کا شرح صدر نہیں ہوسکا اور ہنوز ان کے شہبات باقی رہے ‘ وہ بھی معذور ہیں لیکن جن لوگوں پر حجت تمام ہوگئی اور وہ محض کج بحثی اور ہٹ دھرمی سے اپنے باطل موقف پر ڈٹے رہے تو اگر ان کا موقف کسی کفر کو مستلزم ہے تو وہ دائما دوزخ میں رہیں گے ‘ اور اگر ان کا موقف کسی گمراہی کو مستلزم ہے تو وہ دوزخ میں دخول کے مستحق ہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے بحوالہ تفسیر تبیان القرآن - (سورۃ نمبر 2 البقرة آیت نمبر 113)
(5) فتاویٰ رضویہ میں ہے
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے (حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳)
(فتاویٰ رضویہ ج 29 ص 33 مکتبہ المدینہ )
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔٢٩/٠٧/٢٠٢٣