Type Here to Get Search Results !

اگر شوہر نامرد ہو تو عورت بدون طلاق دوسری شادی کر سکتی ہے؟

 (سوال نمبر 191)
اگر شوہر نامرد ہو تو عورت بدون طلاق دوسری شادی کر سکتی ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ 
کیا فرماتے مفتیان عظام اور علماء کرام مسئلہ ذیل کے متعلق کہ ہندہ کا نکاح ہوئے ایک سال گزر گیا اور اب ہندہ کہتی ہے کہ زید میرا شوہر میرے کام کا نہیں میرے قابل نہیں ہے یعنی میرا شوہر نامرد ہے شادی کے ایک سال گزر گیا پر ایک دن بھی میرے ساتھ ہمبستری نہیں کیا ا س لئے ہندہ بغیر طلاق کے نکاح کرنا چاہتی ہے جبکہ زید طلاق دینا نہیں چاہتا ؟ اگر ہندہ بغیر طلاق کے دوسری شادی کرلی تو شرعا ہندہ کے لئے کیا حکم ہے ؟جواب بھیجیں عنایت ہوگی ۔
سائل:- مولانا محمد وسیم دلی انڈیا ۔
""""""""""""""""""""""""""""""""""""
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته. 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
مسلئہ مسئولہ میں اگر زید نا مرد ہے اور ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے قاصر ہے یعنی عنین ہے تو ہندہ کو شرعی قاضی کے ذریعے اپنا نکاح فسخ کر نے کا اختیار ہے مثلا ہندہ اپنے علاقے کے شرعی قاضی کے پاس جائے اور اپنا دعویٰ پیش کرے کہ میرا شوہر ہمبستری کے قابل نہیں ہے اور شادی کے بعد سے اب تک ایک بار بھی حقوق زوجیت ادا نہیں کیا پس قاضی شوہر کو طلب کر کے تحقیق و تفتیش کریں گے اگر ثابت ہوجائے کہ حقیقت میں عنین ہے پھر بھی قاضی علاج وغیرہ کے لئے ایک سال کی مہلت دیں گے اگر سال بھر بعد بھی زید ہمبستری پر قادر نہ ہوا اب قاضی ہندہ سے پوچھیں گے کہ زید کے ساتھ رہنا ہے یا نہیں یا جدائی چاہئے اگر ہندہ جدائی طلب کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کر دیں گے اب ہندہ عدت گزار کر دوسری شادی کر سکتی ہے ۔
جیسا کہ حدیث پاک میں ہے 
عن عبد اللّٰه رضي اللّٰه عنه قال: یؤجل العنین سنةً، فإن وصل إلیها، وإلا فرّق بینهما ولها الصداق". (المعجم الکبیر للطبراني ۹؍۳۴۳ رقم: ۹۷۰۶)
وإذا وجدت المرأة زوجها عنینًا فلها الخیار، إن شاء ت أقامت معه کذٰلک، وإن شاء ت خاصمته عند القاضي وطلبت الفرقة"
(المحیط البرهاني ، کتاب النکاح / الفصل الثالث والعشرون : العنین ۴ ؍ ۲۳۸ المجلس العلمي )
کما فی الدر المختار 
(هو) لغةً: من لايقدر على الجماع، فعيل بمعنى مفعول، جمعه عنن. وشرعًا: (من لايقدر على جماع فرج زوجته) يعني لمانع منه ككبر سن، أو سحر، إذ الرتقاء لا خيار لها للمانع منها خانية. (إذا وجدت) المرأة (زوجها مجبوبا) ، أو مقطوع الذكر فقط أو صغيره جدا كالزر، ولو قصيرا لا يمكنه إدخاله داخل الفرج فليس لها الفرقة بحر، وفيه نظر.وفيه: المجبوب كالعنين إلا في مسألتين؛ التأجيل، ومجيء الولد (فرق) الحاكم بطلبها لو حرة بالغة غير رتقاء وقرناء وغير عالمة بحاله قبل النكاح وغير راضية به بعده (بينهما في الحال) ولو المجبوب صغيرا لعدم فائدة التأجيل.(قوله: وغير عالمة بحاله إلخ) أما لو كانت عالمة فلا خيار لها على المذهب كما يأتي، وكذا لو رضيت به بعد النكاح"(
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 494):
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں 
فَإِذَا امْتَنَعَ نَابَ الْقَاضِي مَنَابَهُ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا وَلَا بُدَّ مِنْ طَلَبِهَا لِأَنَّ التَّفْرِيقَ حَقُّهَا "وَتِلْكَ الْفُرْقَةُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ."
جب خاوند اس پر آمادہ نہ ہو قاضی خود اس (خاوند) کا قائمقام ہوکر دونوں میں تفریق کردے چونکہ یہ بیوی کا حق ہے، لہٰذا اس کا مطالبہ کرنا ضروری ہے''اور یہ تفریق و تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔''
مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 2: 26، المکتبة الإسلامیة
فتاویٰ ہندیہ میں بھی عدالتی تنسیخ کو طلاق بائن قرار دیا گیا ہے:
إنْ اخْتَارَتْ الْفُرْقَةَ أَمَرَ الْقَاضِي أَنْ يُطَلِّقَهَا طَلْقَةً بَائِنَةً فَإِنْ أَبَى فَرَّقَ بَيْنَهُمَا... وَالْفُرْقَةُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ
.
اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔
(الفتاوی الهندیة، 1: 524، دار الفکر)
والله ورسوله أعلم بالصواب 
کتبہ :-محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨،ضلع سرها نیپال ۔
 خادم البرقی دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال

مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال 
(١) مفتی ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٣) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 زیر سرپرستی 
قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔۔
 المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔۔۔۔۔۔ 
١٢/١١/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area