Type Here to Get Search Results !

ابراہیم و محمد ابنان مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہم کی شہادت ایک افسانہ ہے


ابراہیم و محمد ابنان مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہم کی شہادت ایک افسانہ ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ابراہیم و محمد کی کوفہ جاتے ہوئے راستے میں شھادت کا واقعہ بالکل غیر معتبر ہے تاریخ کی کسی بھی معتبر کتاب میں یہ واقعہ مذکور نہیں ہے امام مسلم کے بچوں کا افسانہ سب سے پہلے اعثم الکوفی نے اپنی کتاب الفتوح میں لکھا مگر اس نے بھی صرف ان کے قیدی ہونے کو بیان کیا ھے, البتہ ملاحسین کاشفی نے روضةالشھداء میں ان کی شھادت کا شوشہ چھوڑا یہی اولین ماخذ ھے, جس میں ابراھیم و محمد کی شھادت کا بیان ھے جس افسانے کو خود معتبر شیعہ مصنفین نے بھی بے بنیاد قرار دے کر رد کردیا ھے,
مرزا تقی اپنی کتاب ناسخ التواریخ میں لکھتا ہے،
مکشوف باد کہ شھادت محمد و ابراھیم پسرہائے مسلم کمتر درکتاب پیشینیاں دیدہ ام الا آنکہ عاصم(اعثم)کوفی می گوید کہ بعدازقتل حسین چوں اھل بیت را اسیر کردند پسرہائے مسلم صغیر درمیان اسرای بودند ابن زیاد ایشاں را بگرفت ومحبوس نمود نخستیں در بارہ شھادت ایشاں درکتاب روضةالشھداء مسطوراست ومن ایں قصہ را از روضةالشھداء منتخب می دارم و قصہ ایشاں معتبر نیست۔
(ناسخ التواریخ،ملخصا،ص110ج2)
امام مسلم کے صاحبزادگان کی شھادت کا واقعہ پہلی کتابوں میں نہیں ہے سب سے پہلے اعثم الکوفی نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے مگر اس نے صاف لکھا ہے کہ امام مسلم کے دونوں صاحبزادے محمد وابراھیم کربلا میں بھی تھے لیکن دیگر اھل بیت کے ساتھ ابن زیاد کے ھاتھوں گرفتار ہوئے
شھادت کی بات سب سے پہلے ملا حسین کاشفی نے روضةالشھداء میں نقل فرمائی اور میں نے بھی اسی سے نقل کرکے یہ واقعہ لکھا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ نہایت غیر معتبر واقعہ ہے۔۔
اور بعض نے تو یہ کہا ہے ان بچوں کا وجود ہی نہیں تھا،۔
بعض کہتے ہیں یہ اولاد حضرت جعفر طیار کی ہیں اور بعض عبداللہ بن جعفر کی اولاد بتاتے ہیں، بعض نے کہا ہے کربلا کے واقعہ سے پہلے ان دونوں کی معلومات ہی ثابت نہیں ہے واقعہ کربلا میں ان کی شہادت کا اشارہ ہے صرف،
امام مسلم جب کربلا کی طرف جانے کا ارادہ فرماتے ہیں تو تاریخ کی تمام معتبر کتب میں یہ کہیں نہیں ہے کہ آپ اپنے بچوں محمد و ابراہیم کو ساتھ لیکر گۓ اسی طرح جب آپ نے وصیت فرمائی تو وہاں بھی آپ کے بچوں کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کربلا کے راستے میں کہیں ذکر ہے،، 
یہ بچوں کی شہادت کا واقعہ محض ایک افسانہ ہے جس کا انکار شیعہ بھی نہ کر سکیں ،۔
ایک شیعہ مؤرخ نے سالہا سال کربلا کے واقعہ پر تحقیق کرکے
 ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام مجاہد اعظم ہے
جس کا حصہ اول مجھ فقیر کو میسر ہوا حصہ دوم کوشش کے باوجود نہ مل پایا حصہ اول میں وہ لکھتا ہے کہ،
اس شہادت کے واقعہ کی بحث حصہ دوم میں مفصل کی جاۓ گی لیکن اس موقع پر اتنا جان لینا کافی ہے کہ یہ واقعہ قدیم و مستند کتابوں میں قطعاً نہیں ہے۔ اس واقعہ کو سب سے پہلے صاحب روضتہ الشہداء نے نقل کیا ہے لیکن کسی کتاب کی سند نقل نہیں کی،۔ روضتہ الشہداء کوئ مستند کتاب نہیں ہے ۔ اس کتاب میں ضعیف اور بے اصل روایات بہ کثرت بھری ہوئی ہیں ۔، دوسرے مصنفوں نے جو یہ واقعہ لکھا ہے وہ محض ملا موصف کی ہی کتاب سے نقل کیا ہے انہی کی پیروی و تقلید کی ہے ،سلسلہ روایت کے وثوق و عدم وثوق سے قطع نظر کر کے اصول روایات سے بھی اس کی تصدیق مشتبہ اور مشکوک ہے نہ تو اس کی کوئی سند ہے نہ تو اس کی موافقت کسی تاریخ کی معتبر کتاب سے ہوتی ہے، اور نہ اصول روایات اس کے موافق ہے، تو سواۓ اس کے کہ اس کو غلط اور موضوع منگھڑت کہا جاۓ اور کیا چارا ہو سکتا ہے،
(مجاہد اعظم حصہ اول صفحہ 197)
واقعہ کربلا میں بہت سے واقعات بلا تحقیق اور صرف اعتماد پر ان کو لکھ دیا گیا جن میں من گھڑت روایات واقعات شامل ہو گۓ،
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب امام اہلسنت سے سائل نے سوال کیا کہ حضرت مسلم کے صاحب زادیں کوفہ میں شہید ہوۓ یا نہیں تاریخ طبری میں ہے کہ کوفہ میں صاحب زادیں ہمارہ نہ تھے۔،
تو اس سوال کے جواب میں امام اہلسنت فرماتے ہیں،،
یہ نہ تو مجھے اس وقت یاد ہے نہ تاریخ دیکھنے کی فرصت نہ اس سوال کی حاجت،،
(فتاوی رضویہ 24 جلد صفحہ 510)
قارئین کرام سائل کے سوال سے معلوم ہوتا ہے،، اس دور میں بھی حضرت مسلم کے بچوں کے شہادت کے واقعہ کو لیکر شبہ تھا جس وجہ سے سائل نے امام اہلسنت سے سوال کیا لیکن جیسا کہ ہم بتا آۓ ہیں، کہ ان اکابر کا میدان تاریخ کا نہ تھا بلکہ ان حضرات کو فقہ اصول فقہ حدیث اصول حدیث تفسیر و دیگر علوم میں مہارت حاصل تھی، لیکن تاریخ کا میدان ان حضرات کا نہ تھا جیسا کہ امام اہلسنت کے جواب سے بھی ظاہر ہو رہا ہے فرمایا،، مجھے اس وقت اس بارے میں کچھ یاد نہیں اور ساتھ ہی فرمایا تاریخ کی کتب دیکھنے کی فرصت نہیں چونکہ امام اہلسنت کے پاس سوال جواب کی کثرت رہا کرتی تھی، جس وجہ سے تاریخ کتب کی فرصت نہ تھی، نیز دیگر کام بھی ہوا کرتے تھے اس میں مصروفیات ہوا کرتی تھی، جس وجہ سے فرمایا دیکھنے کی فرصت نہیں قارئین کرام ہمنیں اس واقعہ کے ساتھ ساتھ دیگر واقعات کا بھی من گھڑت ہونا بیان کردیا ہے لہذا ایسے من گھڑت روایات سے بچنا ہم پر لازم ضروری ہے، جن کی تحقیق ہم نے 
واقعات کربلا کی تحقیق و تردید میں کردی ہے، اس کی pdf اسی نام سے گوگول سے بھی لوڈ کر سکتیں ہیں
خلاصہ کلام یہ ہے امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے صاحب زادوں کا واقعہ بھی من جملہ ان واقعات من گھڑت میں سے ہے جسے رلانے اور لوگو کو دہاڑے مارکر آنسو بہانے کے لیے واعظین اپنے واعظوں میں، ذاکرین اپنے خطاب میں،اور غیر محطاط
 مصنف اپنی تصنیفات میں ذکر کرتے ہیں،۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
ہلدوانی نینیتال 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area