(سوال نمبر 5056)
دعا کس وقت قبول ہوتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسلئے کے بارے میں کہ کب دعائیں قبول ہوتی ہے؟ حدیث شریف کی روشنی میں بیان فرمائے اور جمعہ کے دن خطبہ کے درمیان جو دعا مانگنی چاہیے قبول ہوتی ہے کیا یہ حدیث ہے۔؟
ایسا کوئی وظیفہ یا وقت بتائیں جب دعائیں قبول ہوتی ہوں صرف حدیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہوں۔
یہ بھی بیان فرما دیں کہ اگر کوئی شخص کسی مخصوص وقت میں ڈرتا ہو جیسے امتحان کے رزلٹ کے وقت کوئی ڈرتا ہے تو کیا کرنا چاہئے کہ ڈر ختم ہو جائیں۔
سائل:-مزمل صدیقی پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
١/ قبولیت دعا کے مختلف اوقات ہیں اذان و اقامت کے درمیان پنج وقت فرض نماز کے بعد اسی طرح خطبہ کے درمیان دل میں دعاء کریں ہاتھ اٹھا کر اور زبان سے نہیں اسی طرح روزہ دار کے لیے افطار کے وقت دعا کی قبولیت حدیث میں وارد ہے اسی طرح جمعہ کے دن عصر کے بعد سے غروب شمس کے درمیان ایک ساعت ایسی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے، حدیث پاک میں ہے
التمسوا الساعة التی تُرجی في یوم الجمعة بعد العصر إلی غیبوبة الشمس رواہ الترمذی (مشکاة)
جمعہ کے دن ایک ایسا وقت ہے کہ اُس میں دعا قبول ہوتی ہے بخاری و مسلم ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی فرماتے ہیں صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جمعہ میں ایک ایسی ساعت ہے کہ مسلمان بندہ اگر اسے پالے اور اس وقت ﷲ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو وہ اسے دے گا اور مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے رہا یہ کہ وہ کون سا وقت ہے اس میں روایتیں بہت ہیں ان میں دو قوی ہیں ایک یہ کہ امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے ختم نماز تک ہے۔ اس حدیث کو مسلم ابو بردہ بن ابی موسیٰ سے وہ اپنے والد سے وہ حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ جمعہ کی پچھلی ساعت ہے۔(یعنی عصر سے غروب آفتاب تک) (بہار شریعت ح ٤ ص ٧٥٩ مكتبة المدينة)
فتاوی رضویہ میں
جمعۃ المبارک کے دن دو خطبوں کے درمیان دعائوں کے بارے میں سوال ہوا کہ آیایہ مکروہِ تحریمی ہے یا تنزیہی یا جائزہے، ایک صاحب اسے بدعت اور حرام بتاتے ہیں ۔آپ نے تفصیلی جواب لکھا،جس کا خلاصہ یہ ہے
دو خطبوں کے درمیان امام کا دعا مانگنا بالاتفاق جائز ہے بلکہ خطبے کے درمیان بھی رسول اللہ ﷺ سے ہاتھ اٹھاکر بارش کے لیے دعا مانگنا صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔فقہِ حنفی میں دو خطبوں کے درمیان مقتدی کے لیے دعا مانگنا صاحبین کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے امام اعظمؒ سے بھی ایک قول کے مطابق اس کا جواز ثابت ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک بھی جائز ہے،تاہم آپ نے لکھا یہ کوئی ایسا امر نہیں جس پر شدت اختیار کی جائے نرمی سے سمجھایا جائے اگر کوئی نہ مانے تو اس کی بناء پر فتنہ اٹھانا اور گروہ بندی کی حاجت نہیں ہے آپ نے اس موضوع پر رِعَایۃ المَذہَبَین فِی الدّعاءِ بینَ الخُطبَتَین کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، (فتاویٰ رضویہ)
٢/ نماز کی پابندی کریں اور رب کی بارگاہ میں اپنے خیر کے لیے دعا کریں ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔24/07/2023
دعا کس وقت قبول ہوتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسلئے کے بارے میں کہ کب دعائیں قبول ہوتی ہے؟ حدیث شریف کی روشنی میں بیان فرمائے اور جمعہ کے دن خطبہ کے درمیان جو دعا مانگنی چاہیے قبول ہوتی ہے کیا یہ حدیث ہے۔؟
ایسا کوئی وظیفہ یا وقت بتائیں جب دعائیں قبول ہوتی ہوں صرف حدیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہوں۔
یہ بھی بیان فرما دیں کہ اگر کوئی شخص کسی مخصوص وقت میں ڈرتا ہو جیسے امتحان کے رزلٹ کے وقت کوئی ڈرتا ہے تو کیا کرنا چاہئے کہ ڈر ختم ہو جائیں۔
سائل:-مزمل صدیقی پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
١/ قبولیت دعا کے مختلف اوقات ہیں اذان و اقامت کے درمیان پنج وقت فرض نماز کے بعد اسی طرح خطبہ کے درمیان دل میں دعاء کریں ہاتھ اٹھا کر اور زبان سے نہیں اسی طرح روزہ دار کے لیے افطار کے وقت دعا کی قبولیت حدیث میں وارد ہے اسی طرح جمعہ کے دن عصر کے بعد سے غروب شمس کے درمیان ایک ساعت ایسی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے، حدیث پاک میں ہے
التمسوا الساعة التی تُرجی في یوم الجمعة بعد العصر إلی غیبوبة الشمس رواہ الترمذی (مشکاة)
جمعہ کے دن ایک ایسا وقت ہے کہ اُس میں دعا قبول ہوتی ہے بخاری و مسلم ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی فرماتے ہیں صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جمعہ میں ایک ایسی ساعت ہے کہ مسلمان بندہ اگر اسے پالے اور اس وقت ﷲ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو وہ اسے دے گا اور مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے رہا یہ کہ وہ کون سا وقت ہے اس میں روایتیں بہت ہیں ان میں دو قوی ہیں ایک یہ کہ امام کے خطبہ کے لیے بیٹھنے سے ختم نماز تک ہے۔ اس حدیث کو مسلم ابو بردہ بن ابی موسیٰ سے وہ اپنے والد سے وہ حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ جمعہ کی پچھلی ساعت ہے۔(یعنی عصر سے غروب آفتاب تک) (بہار شریعت ح ٤ ص ٧٥٩ مكتبة المدينة)
فتاوی رضویہ میں
جمعۃ المبارک کے دن دو خطبوں کے درمیان دعائوں کے بارے میں سوال ہوا کہ آیایہ مکروہِ تحریمی ہے یا تنزیہی یا جائزہے، ایک صاحب اسے بدعت اور حرام بتاتے ہیں ۔آپ نے تفصیلی جواب لکھا،جس کا خلاصہ یہ ہے
دو خطبوں کے درمیان امام کا دعا مانگنا بالاتفاق جائز ہے بلکہ خطبے کے درمیان بھی رسول اللہ ﷺ سے ہاتھ اٹھاکر بارش کے لیے دعا مانگنا صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔فقہِ حنفی میں دو خطبوں کے درمیان مقتدی کے لیے دعا مانگنا صاحبین کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے امام اعظمؒ سے بھی ایک قول کے مطابق اس کا جواز ثابت ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک بھی جائز ہے،تاہم آپ نے لکھا یہ کوئی ایسا امر نہیں جس پر شدت اختیار کی جائے نرمی سے سمجھایا جائے اگر کوئی نہ مانے تو اس کی بناء پر فتنہ اٹھانا اور گروہ بندی کی حاجت نہیں ہے آپ نے اس موضوع پر رِعَایۃ المَذہَبَین فِی الدّعاءِ بینَ الخُطبَتَین کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، (فتاویٰ رضویہ)
٢/ نماز کی پابندی کریں اور رب کی بارگاہ میں اپنے خیر کے لیے دعا کریں ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔24/07/2023