حرام پیسہ مسجد میں لگانا کیسا ہے؟
السلام عليکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال کیافرماتے ہیں مفتیان کرام وعلماء دین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخس ہے جس نے ایک لاکھ روپیے مسجد میں دیا ہے جوکہ اس کا کاروبار ہے شراب و دارو کا ٹھیکہ کا اب اس کامائی سے ایک لاکھ روپیے مسجد میں دیا ہے کیا اسکا لینا جائز ہے یا نہیں وہ مسلمان ہےاگر اس دیے دیا ہے تو اس روپیے کیا ہوگا شریعت کا کیا حکم ہوگا جواب عنایت فرمائیں بڑی مہربانی ہوگئی
سائل : محمد رفیق انصاری اندور سے
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛
الجواب بعون الملک الوھاب؛
شراب کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے
ارشاد خداوندی ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
آیتِ مبارکہ میں چار چیزوں کے نجاست و خباثت اور ان کا شیطانی کام ہونے کے بارے میں بیان فرمایا اور ان سے بچنے کا حکم دیاگیا ہے وہ چار چیزیں
(1) شراب۔ (2) جوا۔(3) اَنصاب یعنی بت ۔(4) اَزلام یعنی پانسے ڈالنا۔ ( القرآن سورۃ المائدہ آیت ٩٠ )
اور احادیث مبارکہ میں بھی شراب کے متعلق بےشمار وعیدیں مذکور ہے
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی: شراب بنانے والے پر۔ شراب بنوانے والے پر۔ شراب پینے والے پر۔ شراب اٹھانے والے پر۔ جس کے پاس شراب اٹھا کر لائی گئی اس پر۔ شراب پلانے والے پر۔ شراب بیچنے والے پر۔ شراب کی قیمت کھانے والے پر۔ شراب خریدنے والے پر۔ جس کے لئے شراب خریدی گئی اس پر۔
(ترمذی، کتاب البیوع، باب النہی ان یتخذ الخمر خلاً، ۳/۴۷، الحدیث: ۱۲۹۹)
اور تفسیر احمدیہ میں اس کے خرید وفروخت کے متعلق منقول ہے کہ اس کی خرید وفروخت مسلمان کیلئے جاٸز نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے نجس فرمایا ہے(تفسیر احمدیہ ص ٥١٩ )
مذکورہ تمام باتوں سے واضح ہوا کہ شراب حرام اور اسکی کماٸی بھی حرام ہے صورت مسؤلہ میں شراب کے علاوہ کاروبار ہے تو اس کا پیسہ مسجد میں لگا سکتے ہیں اور اگر فقط شراب ہی کا کاروبار ہے تو جاٸز نہیں لھذا جس نے دیا ہے اسے واپس کرے تاکہ اسے عبرت حاصل ہو۔ (فتاوی فقیہ ملت جلد دوم ص ١٤٢)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب؛
✍🏽ازقلم،حضرت علامہ ومولانا
محمد جابر القادری رضوی صاحب
قبلہ مد ظلہ العالی و النورانی