مفتیان کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ جیون بیمہ کروانا از روے شرع کیسا ہے جواب عنایت فرما دیں مہربانی ہوگی.
السائل: محمد كليم رضوي
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین ۔۔۔
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
انشورنس اور بیمہ کے تفصیلی احکامات درج ذیل ہیں:
بیمہ کالغوی معنیٰ
بیمہ کے لئے انگریزی زبان میں Insurance (انشورنس) کا لفظ استعما ہوت ہے اور عربی زبان میں اس کو تامین کہا جاتا ہے۔ ان تینوں الفاظ یعنی بیمہ، انشورنس، تامین کے معنی ’’یقین دہانی‘‘ کے ہیں۔
اصطلاحی تعریف
اردو دائرہ معارف اسلامیہ کا مقالہ نگار لکھتا ہے ’’بیمہ فریقین کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہے جس میں ایک فریق (بیمہ کمپنی) دوسرے فریق (بیمہ کرانے والا) کے نامعلوم نقصان کے واقع ہونے پر ایک مقررہ رقم ادا کرنے کا ذمہ لیتا ہے اور اس کے بدلے دوسرا فریق ایک مقررہ رقم اقساط (پریمیئم) کی شکل میں اس وقت تک ادا کرنے کا عہد کرتا ہے جب تک کہ وہ نامعلوم نقصان واقع نہ ہو جائے۔
اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 14: 456 ، زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب ، لاہور
بیمہ کی ابتداء
بیمہ کی ابتداء 1400ء میں اٹلی کے تاجروں نے کی۔
سترہویں صدی عیسوی میں انگلستان میں بیماروں کی امداد کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔
اٹھارہویں صدی میں تاجروں نے اپنی انجمنیں قائم کیں اور تاجر برادری کا جو فرد کسی حادثہ کا شکار ہو جاتا اس کی مشترکہ فنڈ سے مدد کی جاتی۔
تاہم انگلستان سے متعلق قدیم ترین بحری انشورنس کی تاریخ 1547ء بتائی جاتی ہے۔
بیمہ کی اقسام
اس کی مندرجہ ذیل مشہور اقسام ہیں۔
زندگی کا بیمہ
املاک کا بیمہ
اعضاء کا بیمہ
ذمہ داریوں کا بیمہ (مثلاً بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ)
قیمتی کاغذات اور اسناد کا
بیمہ
بیمہ کا طریقہ کارایک شخص اپنی زندگی کا بیمہ کرانا چاہے تو اس کا طریق کار یہ ہے کہ بیمہ کمپنی کا ڈاکٹر اس کی حیات کا اندازہ کرتا ہے کہ یہ شخص اتنی مدت مثلاً بیس سال تک طبعی طور پر زندہ رہنے کے قابل ہے۔ اس کے مطمئن ہونے کے بعد بیمہ کمپنی اور بیمہ دار کے درمیان ایک معاہدہ طے پاتا ہے۔ بیمہ دار جتنی رقم کا بیمہ کرانا چاہتا ہے اسے سالانہ اقساط میں تقسیم کر کے بالاقساط بیمہ کمپنی کو ادا کرتا رہتا ہے۔ ایک مقررہ مدت کے بعد وہ رقم اسے یا اس کے لواحقین کو شرائط کے تحت واپس کر دی جاتی ہیں اور اصل رقم کے ساتھ مقررہ شرح فیصد کے حساب سے کچھ مزید رقم بھی دی جاتی ہے۔ اس رقم کا نام بونس (منافع) رکھا گیا ہے۔
بیمہ علماء کی نظر میں
بیمہ زندگی اصولی طور پر نہایت مفید سکیم ہے جس سے کوئی شہری اپنا اور اپنے بچوں کا معاشی مستقبل محفوظ کر سکتا ہے۔ بس اتنی حد تک درست ہے۔ اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عام علمائے کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے حتی کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان حنفی قادری رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے۔
امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ ، احکام شریعت: ص 199 ،
لہٰذا ہم بھی اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ اگر گورمینٹ کا بیمہ ہو تو زیادہ احسن ہے
مجوزین بیمہ کے دلائل اور ان کا تنقیدی جائزہ:
مجوزین بیمہ‘
بیمہ کے حق میں مندرجہ ذیل دلائل دیتے ہیں۔
اس طرح انسان کی دولت بھی محفوظ رہتی ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
دنیا حوادث کی آماجگاہ ہے۔ حوادث کی صورت میں نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے۔
غریب آدمی کے لئے تمام حالات میں رقم روپیہ (جمع) کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بیمہ پالیسی کی صورت میں تھوڑی تھوڑی جمع شدہ رقم یتیموں اور بیواؤں کا سہارا بنتی ہے اور مشکل وقت میں ان کے کام آتی ہے۔
یہ خادم انسانیت نظام ہے جس کا مقصد غریبوں اور محتاجوں کی اعانت ہے۔
شریعت اسلامیہ اجتماعی زندگی میں تعاون و تکافل پر بہت زور دیتی ہے لہٰذا بیمہ تعاون و تکافل کی ایک قانونی اور منظم شکل ہے۔
انسان کے مرنے کے بعد اس کے پسماندگان کی مالی امداد ہو جاتی ہے۔
حادثاتی صورت میں انسان کے سرمایہ کا تحفظ ہوتا ہے۔
بیمہ کے موجودہ نظام کے لئے قابل عمل اصلاحی ترامیم:
بیمہ کمپنی شرکت اور مضاربت کے اصول پر اپنا سرمایہ لگائے۔
جو شخص دو یا تین قسطیں جمع کروا کر باقی اقساط جمع نہ کرے اس کی رقم واپس کر دی جائے البتہ اس سے اخراجات وضع کر لئے جائیں اور بیمہ بولڈر ایک قسط ادا کرنے کے بعد کسی مرحلہ پر فوت ہو جائے تو معاہدہ کے مطابق کمپنی پوری رقم مرنے والے کے شرعی وارثوں کو ادا کرنے کی پابند ہو جیسا کہ آج کل ہے۔
بیمہ کرانے والوں کو بیمہ کمپنی حصہ دار قرار دے اور ان کے سرمایہ کو حصص قرار دے اور ان کے حصص کا جس قدر اوسط منافع بنتا ہے وہ ان کو دے دیا جائے۔ البتہ کمپنی اپنا کمیشن مقرر کر کے اس کو وضع کر سکتی ہے۔
بیمہ کمپنیوں کو حکومت اپنی تحویل میں لے لے۔
ضروری نوٹ :
بیمہ اور انشورنس جان و زندگی کا ہو یا جائیداد و کاروبار کا، چونکہ براہ راست اس میں سود، جوا وغیرہ نہیں اور بیمہ ہولڈر کمپنی سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرتا جس
میں کوئی غیر شرعی صورت پیدا ہو، پس ہمارے نزدیک یہ کاروبار اصلاً مفید اور شرعاً جائز ہے۔ رہ گیا یہ معاملہ کہ یہ کمپنیاں پریمیئر کی رقوم کو کہاں انوسٹ کرتی ہیں؟ تو ظاہر ہے کہ یہ انوسٹمنٹ زراعت، تجارت، صنعت وغیرہ جائز منصوبوں میں شرعی اصولوں کے مطابق بھی ہو سکتی ہے اور سود، جوا اور فحاشی کے شعبوں میں بھی، جو حرام ہے۔ اب جائز و ناجائز کا فرق کرنا متعلقہ کمپنیوں پر ہے۔ بیمہ ہولڈرز براہ راست کسی ناجائز کام میں ملوث نہیں۔ اللہ تعالی سودی نظام کو کلیتہً ختم کرنے اور اسلامی نظام معاش اپنانے کی منزل ہمارے لئے آسان فرمائے پس ہماری قطعی رائے یہی ہے کہ بیمہ و انشورنس کی سکیم نہایت مفید اور شرعاً جائز ہے۔
المختصر آپ، اپنی، گاڑی، مکان، دوکان، فصل، کاروبار وغیرہ سب کی انشورنس کروا سکتے ہیں جائز ہے۔
لائف انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا:
لائف انشورنس کے جو ادارے کام کر رہے ہیں ان میں ہر عہدہ پر ملازمت کرنا جائز ہے کوئی ممانعت نہیں ہے۔
الانتباہ یہ ہماری اپنی ذاتی رائے ہے ۔لہذا بحر العلوم مفتیان کرام فتوی نہ لگائیں ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
كتبه عبده المذنب محمد مجيب القادري لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.