عورتوں میں بہت مشہور ہے کہ کوّے کے بولنے سے مصیبتیں آتی ہیں یا کوئی
انتقال کرجائے تو بولتا ہے کیا یہ صحیح ہے؟
السلام علیکم ورحمت اللہ تعالیٰ وبرکاتہ۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام وباشرع دینِ مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کے گھر كے پیچھے پیڑ لگے ہوئے ہیں جس میں کوّے آکر روزانہ کاوں کاوں کرتے رہتا ہے حاصلِ کلام کیا کوّے کے بولنے سے گھر میں دکھ وبلائیں آتی ہے نوٹ عورتوں میں بہت مشہور ہے کہ کوّے کے بولنے سے مصبیتں یا کوئی اگر انتقال ہوجائے تو بولتا ہے کیا یہ مندِرجہ بالا باتیں من گھڑت ہے یا کوئی اصل بھی ہےوضاحت فرمائیے آپ حضور بفیضِ گنجور جواب عنایت فرمائیے وعِنداللہ ماجور ہو ۔۔۔۔ فقط والسلام مع الاحترام
السائل:-محمد اکمل الرضا الرشیدی گوال پوگھر اتّر دیناج پور ویسٹ بنجال الہند
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
کوے کے کائوں کائوں کرنے سے مصیبت و بلا کا انا یا مہمان کا آنا یا اس کے بولنے سے کسی موت کے بابت سوچنا یہ سب جہالت ہے شرعا ان امور کی کوئی حقیقت نہیں ہے یاد رہے کہ
شرعاً شگون بد کوئی چیز نہیں ہے، بدشگونی درست اورجائز نہیں۔پس بعض تاریخوں یا بعض مہینوں کومنحوس جاننا ،یا بعض پرندوں کےگھرو ں پربیٹھ کربولنے کومنحوس خیال کرنا ، یا بعض جانوروں کی سکونت کومنحوس جاننا ، یا کسی خاص تاریخ یامعین دن یا مہنیے میں سفر کرنے کونامبارک سمجھنا ، یاگھر دکان کی دہلیز کے فلاں رخ رہنے کوباعث تنز لی اور فلاں رخ کی رہنے کوباعث ترقی وبرکت سمجھنا دست نہیں ہے۔بہت سی حدیثوں سے یہ ثابت ہےکہ کسی چیز میں نحوست نہیں ہے۔نہ مرد میں ، نہ عورت میں ، نہ گھوڑے میں ،اور نہ کسی اورچیز میں اور بعض حدیثوں میں یہ وارد ہواہے کہ عورت، مکان ، گھوڑے میں نحوست ہے۔
١/ وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم الشؤم في المرأة والدار والفرس ( متفق عليه)
وفي رواية : الشؤم في ثلاثة : في المرأة والمسكن والدابة
روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ نحوست عورت میں اور گھر میں اور گھوڑے میں ہے۔( مسلم،بخاری بحواله المرأة ج ٥ ص ٨ مكتبة المدينة)
اور ایک روایت میں ہے کہ
نحوست تین چیزوں میں ہے عورت میں گھر میں اور گھوڑے میں ہے.
شوم بنا ہے شام سے یمن کا مقابل،یمن کے معنی ہیں برکت،لہذا شوم کے معنی ہیں نحوست،اس حدیث کے بہت معنی کیئے گئے
١/ ایک یہ کہ اگر کسی چیز سے نحوست ہوتی تو ان تین میں ہوتی،
٢/ دوسرے یہ کہ عورت کی نحوست یہ ہے کہ اولاد نہ جنے اور خاوند کی نافرمان ہو،
٣/ مکان کی نحوست یہ ہے کہ تنگ ہو وہاں اذان کی آواز نہ آئے اور اس کے پڑوسی خراب ہوں
٤ / ،گھوڑے کی نحوست یہ ہے کہ مالک کو سواری نہ دے،سرکش ہو۔
بہرحال یہاں شوم سے مراد بدفال نہیں کہ اس کی وجہ سے رزق گھٹ جائے یا آدمی مرجائے کہ اسلام میں بدفالی ممنوع ہے۔لہذا یہ حدیث لاطیرۃ کی حدیث کے خلاف نہیں۔ خیال رہے کہ بعض بندے اور بعض چیزیں مبارک تو ہوتی ہیں کہ ان سے گھر میں مال میں عمر میں زیادتیاں ہوجاتی ہیں جیسے عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں "وَجَعَلَنِیۡ مُبَارَکًا"مگر کوئی چیز اس کے مقابل معنی میں منحوس نہیں،ہاں کافر، کفر، زمانۂ عذاب منحوس ہے رب تعالٰی فرماتا ہے:"فِیۡ یَوْمِ نَحْسٍ
ان کان الشوم فی شیٔی ففی الدار والمرأۃ والفرس
(حاشیہ بخاری جلد ۲، صفحہ ۷۶۳)
والمعنی ان الشوم لوکان لہ وجود فی شیٔی لکان فی ھذہ الاشیاء فانھا اقبل الاشیاء لہ لکن لاوجود لہ فیھا فلا وجود لہ اصلا۔(حاشیہ بخاری جلد ۲، صفحہ ۷۶۳)
فعلی ھذا الشوم فی الاحادیث المستشھد بھا محمول علی الکراھۃ التی سببھا مافی الاشیاء من مخالفۃ الشرع او الطبع کما قیل شوم الدار ضیقھا وسوء جیرانھا وشوم المرأۃ عدم ولادتھا وسلاطۃ لسانھا ونحوھما وشوم الفرس ان لایغزی علیھا ...... فالشوم فیھا عدم موافقتھا لہ شرعاً او طبعا۔ (حاشیہ بخاری جلد ۲، صفحہ ۷۶۳)
والله ورسوله أعلم بالصواب
كتبه عبده المذنب محمد مجيب قادري لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال