Type Here to Get Search Results !

ہم بھی اہلِ وطن ہیں، سوال تو سنو!

ہم بھی اہلِ وطن ہیں، سوال تو سنو!
══════ ༺❀༻ ══════
جب ہمارا وطن آزاد ہوا تو جمہوریت کا تاج اس کے سر پر رکھا گیا، تاکہ ہر قوم، ہر طبقہ، ہر فرد کو اس کی شناخت، اس کی عبادت، اس کی زبان، اس کی سیاست، اور اس کے اظہارِ رائے کا پورا حق حاصل ہو، اور ہر ایک اپنے اپنے طریقے سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو، مگر المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک اگر کوئی قوم سب سے زیادہ پسماندگی، محرومی، اور بےچارگی کی تصویر بنی رہی ہے تو وہ اقلیت ہے، آئینِ ہند نے تو ہر شہری کو برابری کا حق دیا، جینے کا، سیکھنے کا، بولنے کا، سیاست کرنے کا، مگر جب اقلیت ان حقوق کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے تو پورا ماحول اس کے خلاف تیار ہو جاتا ہے، کبھی عبادات پر پہرہ لگتا ہے، کبھی شناخت پر سوال اٹھتا ہے، کبھی آزادیٔ رائے کو دبا دیا جاتا ہے، اور کبھی سیاسی شعور کو فتنہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے، ہندوستان میں سیکڑوں پارٹیاں الیکشن لڑتی ہیں، ہر ایک پارٹی کسی نہ کسی سماج، کسی طبقے، کسی دھرم، کسی اکثریتی یا علاقائی بنیاد سے جڑی ہوتی ہے، ہر پارٹی اپنی قوم، اپنے حلقے، اپنے مفاد کی نمائندگی کرتی ہے، اسمبلیوں میں جاتی ہے، پارلیمنٹ میں آواز بلند کرتی ہے، اور اپنے ووٹروں کے لیے منصوبے بنواتی ہے، قانون پاس کرواتی ہے، مگر جیسے ہی کوئی جماعت، جو اقلیتوں، دلتوں، پسماندہ طبقات اور آدی واسیوں کی بات کرے، جیسے ہی وہ اپنی سیاسی زمین بنانے کی بات کرے، قیادت کا خواب دیکھے، تو اسے اپوزیشن کی بی ٹیم کہہ دیا جاتا ہے، اسے فتنہ پرور، ووٹ کٹوا، اور فسادی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے، جب ان لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آزادی کے بعد سے تم نے صرف ان ہی سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے، پھر تمہاری حالت کیوں بد سے بدتر ہے؟ تمہیں سیاست میں حصہ دار کیوں نہ بنایا گیا؟ تمہیں صرف ووٹ بینک کیوں سمجھا گیا؟ تو جواب میں بس یہی کہا جاتا ہے کہ اب نہیں، اب ہم سنبھل چکے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ ایسا پہلے ہوا ہی کیوں؟ جن لوگوں کا کہنا ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کے چناؤ لڑنے کے بعد اقلیتوں پر ظلم بڑھ گیا ہے، ان سے یہ پوچھنا لازمی ہے کہ 1989 میں جب مجلس نے الیکشن نہیں لڑا تھا، تب بھاگلپور کے فسادات میں سینکڑوں اقلیتی جانیں کیوں گئیں؟ اس وقت کانگریس کی حکومت تھی، 1987 میں ہاشم پورہ میں وردی والوں نے اقلیت کے نوجوانوں کو لائن میں کھڑا کر کے گولیاں مار دیں، کیا اس وقت مجلس انتخابات میں تھی؟ 1992 میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا، اقلیتوں پر جھوٹے مقدمات، گرفتاریاں اور تشدد ہوا، اس وقت بھی مجلس کا چناؤ سے کوئی تعلق نہ تھا، 2002 میں گجرات کے اندر جو تاریخ کی سیاہ ترین راتیں گزریں، جن میں ہزاروں اقلیتوں کو جلا دیا گیا، بے گھر کر دیا گیا، وہ وقت بھی مجلس کے انتخابی عمل میں نہ ہونے کا زمانہ تھا، مظفر نگر کے فسادات، مالدہ، گورکھپور، دادری اور جھارکھنڈ جیسے واقعات، کیا یہ سب مجلس کے انتخابی دائرے میں آنے کے بعد ہوئے؟ کشمیر عظمیٰ جیسے معتبر اخبار کے مطابق آزادی سے 2000 تک ملک میں 58000 سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں پچاس بڑے فسادات میں لاکھوں اقلیتیں جاں بحق ہوئیں، ان فسادات میں کون سی اقلیتی سیاسی جماعت موجود تھی؟ سچر کمیٹی، جو ایک سرکاری ادارہ تھی، اس نے 2006 میں واضح کر دیا کہ اقلیتوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے، اس وقت مرکز میں کانگریس کی سرکار تھی، وہی کانگریس جسے اقلیتوں کا نجات دہندہ مانا جاتا تھا، پھر اس پارٹی نے کیا دیا؟ کیا اقلیتوں کو نوکریوں میں حصہ ملا؟ کیا تعلیم میں برابری ملی؟ کیا تحفظ کی ضمانت دی گئی؟ اور جب طلاق ثلاثہ بل جیسا حساس مسئلہ آیا، تو کانگریس کے ہی ایک اقلیتی ایم پی مولانا اسرار الحق قاسمی کو بولنے کا موقع تک نہیں دیا گیا، ان کی فریاد اسمبلی میں دب گئی، اس وقت سب خاموش تماشائی بنے رہے، آج جب ہم کہتے ہیں کہ ہم بھی چناؤ لڑیں گے، ہم بھی قیادت کھڑی کریں گے، ہم بھی اپنے مسائل خود اٹھائیں گے، تو آپ ہمیں جمہوریت کا دشمن قرار دیتے ہیں، اور نصیحت دیتے ہیں کہ آپ چناؤ ہی مت لڑو، سوال یہ ہے کہ آخر ہم چناؤ کیوں نہ لڑیں؟ کیا صرف اسی لیے کہ آپ کی اجارہ داری برقرار رہے؟ کیا آپ کو ڈر ہے کہ اگر ہماری قیادت آ گئی، اگر ہماری سیٹیں بڑھ گئیں، تو اقلیتیں بیدار ہو جائیں گی، آپ کی اکثریتی صف بندیوں کا جادو ختم ہو جائے گا، وہ ایم وائی (مسلم-یادو) سمیکرن، جس کے نام پر آپ دہائیوں سے اقتدار کا مزہ لوٹتے رہے، وہ تحلیل ہو جائے گا، اور اگر آپ کو یہ اعتراض ہے کہ ہماری جماعت کا نام صرف اقلیتوں کے حوالے سے ہے، تو پھر کیا وشو ہندو پریشد، شیو سینا، اکالی دل، بجرنگ دل جیسے نام، جو اکثریتی شناخت کے نمائندہ ہیں، کیا وہ بھی آئین کے خلاف ہیں؟ اگر نہیں، تو صرف ہماری قیادت پر سوال کیوں؟ اگر ہیں، تو آپ کی زبان ان پر خاموش کیوں ہو جاتی ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ قیادت کھڑی کرنا جمہوریت سے بالا تر سوچ ہے، تو سوال ہے کہ پھر جمہوریت کیا ہے؟ کیا یہ صرف دوسروں کے در پر جھولی پھیلانا ہے؟ کیا قیادت صرف اکثریتی طبقے کا حق ہے؟ کیا اقلیتوں کو ہمیشہ تابع فرمان ہی رہنا چاہیے؟ اگر اکثریت اپنے اتحاد سے ایک قیادت کھڑی کرے تو وہ سیاسی بصیرت، اور اقلیت یہی کرے تو وہ تفرقہ؟ 2014 میں تو اکثریتی اتحاد ہو چکا، پھر آج جب ہم اپنے حق کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں تو تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟ اور یہ سوال بھی بار بار کیا جاتا ہے کہ اگر مجلس آزادی کے وقت سے موجود تھی تو پہلے انتخابات کیوں نہ لڑے؟ ارے بھائی، ہر جماعت اپنے وقت پر اپنے قدم مضبوط کرتی ہے، بی جے پی بھی تو آزادی کے بعد فوراً اقتدار میں نہیں آئی، اس نے بھی دہائیوں تک محنت کی، پھر اگر ہم آج محنت کر رہے ہیں، اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، تو یہ جمہوریت کا حصہ ہے، جرم نہیں، اگر ہم ہر بار اس بہانے پر بیٹھ جائیں کہ بی جے پی کو ہرانا ہے، اس لیے ہم اپنی قیادت نہ ابھاریں، تو قیادت کبھی بھی پیدا نہیں ہوگی، کیا ہم ہمیشہ دوسروں کے تابع رہیں؟ کیا ہمارا کام صرف ووٹ دینا اور تالیاں بجانا ہے؟ اب ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ کہتے ہیں کہ اگر آپ کی ایک دو سیٹیں آ بھی گئیں تو ان سے کیا ہوگا؟ تو سن لیجیے، ہمیں وہ ایک دو سیٹیں ہی بہت ہیں، کیونکہ وہی سیٹیں ہماری بیداری کا آغاز ہیں، وہی سیٹیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ ہم بھی قانون بنا سکتے ہیں، ہم بھی آواز اٹھا سکتے ہیں، ہم بھی دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر سوال کر سکتے ہیں، وہی سیٹیں ہمارے لیے سیاسی شعور کا چراغ ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ایک پارٹی کے بل بوتے پر سب کچھ نہیں بدلا جا سکتا، مگر وہ آغاز ضرور ہو سکتا ہے، وہ بیداری ہے، اور یہی وہ بات ہے جو آپ کو ہضم نہیں ہو رہی، کہ ہم صرف تماشائی نہیں، اب دعوے دار بننا چاہتے ہیں، اب ہم دوسروں کے بل پر نہیں، اپنی طاقت سے جینا چاہتے ہیں، اگر واقعی آپ جمہوریت کے محافظ ہیں، تو ہمیں شامل کیجیے، خارج نہ کیجیے، ہمیں ساتھ لیجیے، راستے سے نہ ہٹایئے، اگر قیادت کا حق سب کو ہے تو ہمیں بھی ہے، اگر نام رکھنے کی آزادی سب کو ہے تو ہمیں بھی ہے، اگر سیاست میں حصہ داری سب کا حق ہے تو ہمارا بھی ہے، اب ہمیں نہ روکیے، نہ ڈرایئے،  
آپ کو دری بچھانا ہے بچھائیے، غلامی کرنی ہے کیجئے، خصیہ برداری کی خواہش ہے شوق سے اپنی خواہشات کی تکمیل کیجئے، مگر قوم کو گمراہ مت کیجئے، اب یہ قوم آپ کو دیکھ چکی ہے، آپ کے منشہ و مراد کو جان چکی ہے، اب یہ قوم آپ کے مغالطے میں آنے والی نہیں 
                                                 
      از...............🖋️
        غلام آسی مونس پورنوی 
         نزیل حال لدھیانہ پنجاب

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area