ایک غلط فہمی کا ازالہ
______________________
______________________
سلسلہ وار قسط اول
_____________________
فتاوی شارح بخاری کے ایک دو فتاویٰ سے جو غلط فہمی ہوتی ہے اس کا ازالہ
اس قسط میں فتاوی ملک العلماء کے فتوےٰ لکھے جائیں گے
(1) وہابی کسے کہتے ہیں.؟
(2) ان کے کیا عقائد ہیں؟
(3) شرعا وہ کافر ہیں یا بے دین؟
(4) اگر وہ کافر نہیں تو اس کو کافر کہنے والا خود کافر ہے یا نہیں؟
(5) کافر اور بے دین یا بدمذہب کا کیا مطلب؟
(6)ایک سنی شخص ایسی بستی میں رہتا ہے جہاں وہابی بکثرت رہتے ہیں اور الگ جگہ کے نہ ہونے سے وہاں کے لوگوں سے زیادہ میل جول رکھتا ہے اور اس کو یہ بھی خیال ہے کہ اگر ہم ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کریں گے تو میرا دنیاوی گھٹا ہے اور فی الحقیقت اس کا نقصان ہوتا بھی ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا ایسا شخص وہابی کہلائے گا؟
الجواب بعون الملک الوہاب
حضور ملک العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی ارشاد فرماتے ہیں
محمد بن عبد الوہاب نجدی کے متبع کو وہابی کہتے ہیں ۔کتاب التوحید عربی زبان میں اس کی تصنیف ہے ۔جس میں اپنے خیالات و عقائد اس نے درج کئے ہیں۔اسی کا ترجمعہ تقویت الایمان ہے جو مولوی اسماعیل دہلوی نے لکھی ہے ۔جو لوگ اس کتاب کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں اور اس کے مسائل کو صحیح ودرست جانتے ہیں ۔وہ سب وہابی ہیں ۔
ہندوستان میں وہابیہ کی دو شاخیں ہیں
(1) ایک جو اعتقادا اور عملا ہر طرح محمد بن عبد الوہاب و مولوی اسماعیل دہلوی کے قدم بقدم ہیں ۔ان کو غیر مقلد کہتے ہیں
(2) دوسرے وہ جو اعتقادا تو اسی کے ہم مشرب ہیں اور فرعا حنفی ہیں ۔ان کو دیوبندی کہتے ہیں
محمد بن عبد الوہاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے ۔اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں ۔مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ۔صرف گمراہ اور بدمذہب کہا۔ جیسا کہ مطالعہ رسالہ الکوکبتہ الشھابیہ سے واضح ہوگا۔
اسی وہابیہ کی دوسری شاخ دیوبندی ہے ۔اس نے اللہ و رسول جل علا شانہ و رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں سخت توہین و تنقیص کے کلمات لکھے، چھاپے،جس کی وجہ سے علمائے حرمین شریفین نے دیوبندی کی تکفیر فرمائی ۔مطالعہ ہو رسالہ حسام الحرمین ۔ان دونوں شاخوں کے عقائد وخیالات رسالہ الاستمداد میں بحوالہ کتب وہابیہ جمع کردیے گئے ہیں۔
کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے۔ اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہیے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے۔
اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے ۔مگر اس کے خیالات مطابق اہل سنت نہیں ۔اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے
وہابیوں بلکہ تمام بدمذہبوں سے میل جول رکھنا شرعاً ناجائز ہے قال تعالیٰ : واما ینسیتک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین یعنی اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ( سورۃ الانعام :68)
تفسیرات احمدیہ میں ہے
دخل فیہ الکافر والمبتدع والفاسق والقعود مع کلھم ممتنع
اس آیت میں ہر کافر ومبتدع اور فاسق داخل ہیں ۔ان میں کسی کے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار (ھود113) اور ظالموں کی طرف میل نہ کرو کہ تمہیں آگ چھوئے گی
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ایاکم و ایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم یعنی ان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کرو ۔کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ۔کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں
جو شخص عقیدۃ وعملا ہر طرح سنی ہوں ۔صرف یکجا رہنے کی وجہ سے دنیوی تعلقات ۔میل ملاپ وہابیہ سے رکھتا ہو تو وہ شخص اگرچہ وہابی نہیں ہوجائے گا مگر یہ فعل اس کا شرعا ضرور قابل ملامت ہے۔
(فتاوی ملک العلماء ص 228.239)
فتاوی مملک العلماء سے واضح ہوا کہ
(1) محمد بن عبد الوہاب نجدی اور مولوی اسماعیل دہلوی کے متبع کو وہابی کہتے ہیں
(2) ہندوستان میں وہابیہ کی دو شاخیں ہیں
(الف) ایک وہابی جو غیر مقلد ہیں
(ب) دوسرے کو دیوبندی کہتے ہیں جو اعتقادا محمد بن عبد الوہاب نجدی اور مولوی اسماعیل دہلوی کے ہم مشرب ہیں لیکن وہ حنفی ہیں یعنی غیر مقلد نہیں ہے بلکہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب پر چلنے والے ہیں
اقول ( محمد ثناء اللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی)
حضور شارح ںخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
*اب وہابی کی چار شاخیں ہیں*۔
(1) ایک غیر مقلد
(2) دوسرے دیوبندی
(3) تیسرے ندوی
(4) چوتھے مودودی
یہ چاروں اپنے بنیادی عقائد میں متفق ہیں ۔یہ چاروں مولوی اسماعیل دہلوی مصنف تقویت الایمان اور ابن عبد الوہاب نجدی کی کتاب التوحید کے مصنف کو اپنا مقتدا و پیشوا مانتے ہیں۔چند فروعی باتوں میں آپس میں اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی محض دکھاوے کے لیے
(1) غیر مقلد کا مرکز اس وقت دہلی اور بنارس ہے
(2) دیوبندیوں کا مرکز ۔دیوبند ۔سہارن پور ۔ڈھابیل ہے
(3) ندویوں کا مرکز ندوۃ العلماء لکھنؤ ہے
(4) مودودیوں کا مرکز دہلی ۔رام پور میں ہے
(فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 262)
*ثم اقول*.
اب دیوبندی کے تین اقسام ہیں
(الف) اصلی دیوبندی یعنی کافر مرتد گستاخ رسول
(ب) گمراہ بد دین اہل سنت سے خارج دیوبندی یعنی کافر و مرتد نہیں ہے مگر گمراہ بدمذہب ہے اور اہل سنت وجماعت سے خارج ہے
(ت) اقراری وہابی یا اقراری دیوبندی یعنی جو کہے کہ میں دیوبندی ہوگیا یا دیوبندی ہو اگرچہ مذاق میں کہا تو وہ اقراری دیوبندی ہے
(3) محمد بن عبد الوہاب نجدی و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے ۔اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے گرے ہوئے ہیں۔
(4) اسی لئے التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان دونوں کہ ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ۔صرف گمراہ و بدمذہب کہا ۔
اقول (محمد ثناء اللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار)
لیکن حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
لہذا اس جگہ کے وہابیہ اگر اعتقادیہ کفریہ دیوبند رکھتے یا عقائد کفریہ پر مطلع ہوکر ان کے قائلوں کو کافر نہیں جانتے (اور یہی ظاہر متبادر ہے) تو وہ بلاشبہ کافر مرتد ہیں اور مرتد سے بحکم حدیث مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کوئی معاملے جائز نہیں
اور اگر وہ ایسے وہابی نہیں نہ دیوبندی عقائد رکھتے ہیں نہ ایسے عقیدہ والوں کے کفر میں شک کرتے ہیں مگر غیر مقلد ہیں کہ تقلید کو شرک کہتے ہیں اور مسلمانوں کے مسائل فرعیہ مثل ایصال ثواب وغیرہ پر اعتراض رکھتے ہیں جب بھی ان سے مخالطت و معاملت منع ہے ۔کہ ہمارے ائمہ کرام فقہائے عظام نے ایسے کو بھی کافر کہا ہے ۔اگرچہ ائمہ متکلمین احتیاطا ان کی تکفیر نہیں کرتے اگرچہ توبہ وتجدید ایمان کا حکم احتیاطا وہ بھی مثل فقہاء دیتے ہیں بہر کیف دونوں صورتوں پر وہابیہ سے معاملت ناجائز ( فتاوی تاج الشریعہ جلد دوم ص 315.316/ کتاب العقائد)
(5) مگر ہندوستان میں اسی وہابیہ کی دوسری شاخ دیوبندی ہے ۔اور علمائے حرمین شریفین نے دیوبندی کی تکفیر فرمائی ہے۔
(6) جس فرقہ کی تکفیر فرمائی گئی وہ کافر و مرتد ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
(7) اور جو گمراہ بدمذہب ہے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہے مگر اس کے خیال اہل سنت وجماعت جیسا نہیں اسی لئے بدمذہب ہے ۔
(8) کافر مرتد اور بدمذہب دونوں سے میل جول رکھنا شرعاً ناجائز ہے۔
(9) اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص عقیدۃو عملا ہر طرح سنی ہوں ۔مگر وہابیہ کے ساتھ رہتا ہے اور دنیوی تعلقات میل ملاپ رکھتا ہے تو وہ وہابی نہیں کہلائے گا،مگر یہ فعل ضرور اس کا قابل ملامت ہے ۔
واللہ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد ثناء اللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
17 ربیع الثانی 1447
10 اکتوبر 2025
_____________________
فتاوی شارح بخاری کے ایک دو فتاویٰ سے جو غلط فہمی ہوتی ہے اس کا ازالہ
اس قسط میں فتاوی ملک العلماء کے فتوےٰ لکھے جائیں گے
(1) وہابی کسے کہتے ہیں.؟
(2) ان کے کیا عقائد ہیں؟
(3) شرعا وہ کافر ہیں یا بے دین؟
(4) اگر وہ کافر نہیں تو اس کو کافر کہنے والا خود کافر ہے یا نہیں؟
(5) کافر اور بے دین یا بدمذہب کا کیا مطلب؟
(6)ایک سنی شخص ایسی بستی میں رہتا ہے جہاں وہابی بکثرت رہتے ہیں اور الگ جگہ کے نہ ہونے سے وہاں کے لوگوں سے زیادہ میل جول رکھتا ہے اور اس کو یہ بھی خیال ہے کہ اگر ہم ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کریں گے تو میرا دنیاوی گھٹا ہے اور فی الحقیقت اس کا نقصان ہوتا بھی ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا ایسا شخص وہابی کہلائے گا؟
الجواب بعون الملک الوہاب
حضور ملک العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی ارشاد فرماتے ہیں
محمد بن عبد الوہاب نجدی کے متبع کو وہابی کہتے ہیں ۔کتاب التوحید عربی زبان میں اس کی تصنیف ہے ۔جس میں اپنے خیالات و عقائد اس نے درج کئے ہیں۔اسی کا ترجمعہ تقویت الایمان ہے جو مولوی اسماعیل دہلوی نے لکھی ہے ۔جو لوگ اس کتاب کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں اور اس کے مسائل کو صحیح ودرست جانتے ہیں ۔وہ سب وہابی ہیں ۔
ہندوستان میں وہابیہ کی دو شاخیں ہیں
(1) ایک جو اعتقادا اور عملا ہر طرح محمد بن عبد الوہاب و مولوی اسماعیل دہلوی کے قدم بقدم ہیں ۔ان کو غیر مقلد کہتے ہیں
(2) دوسرے وہ جو اعتقادا تو اسی کے ہم مشرب ہیں اور فرعا حنفی ہیں ۔ان کو دیوبندی کہتے ہیں
محمد بن عبد الوہاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے ۔اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں ۔مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ۔صرف گمراہ اور بدمذہب کہا۔ جیسا کہ مطالعہ رسالہ الکوکبتہ الشھابیہ سے واضح ہوگا۔
اسی وہابیہ کی دوسری شاخ دیوبندی ہے ۔اس نے اللہ و رسول جل علا شانہ و رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں سخت توہین و تنقیص کے کلمات لکھے، چھاپے،جس کی وجہ سے علمائے حرمین شریفین نے دیوبندی کی تکفیر فرمائی ۔مطالعہ ہو رسالہ حسام الحرمین ۔ان دونوں شاخوں کے عقائد وخیالات رسالہ الاستمداد میں بحوالہ کتب وہابیہ جمع کردیے گئے ہیں۔
کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے۔ اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہیے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے۔
اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے ۔مگر اس کے خیالات مطابق اہل سنت نہیں ۔اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے
وہابیوں بلکہ تمام بدمذہبوں سے میل جول رکھنا شرعاً ناجائز ہے قال تعالیٰ : واما ینسیتک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین یعنی اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ( سورۃ الانعام :68)
تفسیرات احمدیہ میں ہے
دخل فیہ الکافر والمبتدع والفاسق والقعود مع کلھم ممتنع
اس آیت میں ہر کافر ومبتدع اور فاسق داخل ہیں ۔ان میں کسی کے پاس بیٹھنے کی اجازت نہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار (ھود113) اور ظالموں کی طرف میل نہ کرو کہ تمہیں آگ چھوئے گی
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ایاکم و ایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم یعنی ان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کرو ۔کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں ۔کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں
جو شخص عقیدۃ وعملا ہر طرح سنی ہوں ۔صرف یکجا رہنے کی وجہ سے دنیوی تعلقات ۔میل ملاپ وہابیہ سے رکھتا ہو تو وہ شخص اگرچہ وہابی نہیں ہوجائے گا مگر یہ فعل اس کا شرعا ضرور قابل ملامت ہے۔
(فتاوی ملک العلماء ص 228.239)
فتاوی مملک العلماء سے واضح ہوا کہ
(1) محمد بن عبد الوہاب نجدی اور مولوی اسماعیل دہلوی کے متبع کو وہابی کہتے ہیں
(2) ہندوستان میں وہابیہ کی دو شاخیں ہیں
(الف) ایک وہابی جو غیر مقلد ہیں
(ب) دوسرے کو دیوبندی کہتے ہیں جو اعتقادا محمد بن عبد الوہاب نجدی اور مولوی اسماعیل دہلوی کے ہم مشرب ہیں لیکن وہ حنفی ہیں یعنی غیر مقلد نہیں ہے بلکہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب پر چلنے والے ہیں
اقول ( محمد ثناء اللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی)
حضور شارح ںخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
*اب وہابی کی چار شاخیں ہیں*۔
(1) ایک غیر مقلد
(2) دوسرے دیوبندی
(3) تیسرے ندوی
(4) چوتھے مودودی
یہ چاروں اپنے بنیادی عقائد میں متفق ہیں ۔یہ چاروں مولوی اسماعیل دہلوی مصنف تقویت الایمان اور ابن عبد الوہاب نجدی کی کتاب التوحید کے مصنف کو اپنا مقتدا و پیشوا مانتے ہیں۔چند فروعی باتوں میں آپس میں اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی محض دکھاوے کے لیے
(1) غیر مقلد کا مرکز اس وقت دہلی اور بنارس ہے
(2) دیوبندیوں کا مرکز ۔دیوبند ۔سہارن پور ۔ڈھابیل ہے
(3) ندویوں کا مرکز ندوۃ العلماء لکھنؤ ہے
(4) مودودیوں کا مرکز دہلی ۔رام پور میں ہے
(فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 262)
*ثم اقول*.
اب دیوبندی کے تین اقسام ہیں
(الف) اصلی دیوبندی یعنی کافر مرتد گستاخ رسول
(ب) گمراہ بد دین اہل سنت سے خارج دیوبندی یعنی کافر و مرتد نہیں ہے مگر گمراہ بدمذہب ہے اور اہل سنت وجماعت سے خارج ہے
(ت) اقراری وہابی یا اقراری دیوبندی یعنی جو کہے کہ میں دیوبندی ہوگیا یا دیوبندی ہو اگرچہ مذاق میں کہا تو وہ اقراری دیوبندی ہے
(3) محمد بن عبد الوہاب نجدی و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے ۔اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے گرے ہوئے ہیں۔
(4) اسی لئے التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان دونوں اور ان دونوں کہ ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ۔صرف گمراہ و بدمذہب کہا ۔
اقول (محمد ثناء اللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار)
لیکن حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
لہذا اس جگہ کے وہابیہ اگر اعتقادیہ کفریہ دیوبند رکھتے یا عقائد کفریہ پر مطلع ہوکر ان کے قائلوں کو کافر نہیں جانتے (اور یہی ظاہر متبادر ہے) تو وہ بلاشبہ کافر مرتد ہیں اور مرتد سے بحکم حدیث مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کوئی معاملے جائز نہیں
اور اگر وہ ایسے وہابی نہیں نہ دیوبندی عقائد رکھتے ہیں نہ ایسے عقیدہ والوں کے کفر میں شک کرتے ہیں مگر غیر مقلد ہیں کہ تقلید کو شرک کہتے ہیں اور مسلمانوں کے مسائل فرعیہ مثل ایصال ثواب وغیرہ پر اعتراض رکھتے ہیں جب بھی ان سے مخالطت و معاملت منع ہے ۔کہ ہمارے ائمہ کرام فقہائے عظام نے ایسے کو بھی کافر کہا ہے ۔اگرچہ ائمہ متکلمین احتیاطا ان کی تکفیر نہیں کرتے اگرچہ توبہ وتجدید ایمان کا حکم احتیاطا وہ بھی مثل فقہاء دیتے ہیں بہر کیف دونوں صورتوں پر وہابیہ سے معاملت ناجائز ( فتاوی تاج الشریعہ جلد دوم ص 315.316/ کتاب العقائد)
(5) مگر ہندوستان میں اسی وہابیہ کی دوسری شاخ دیوبندی ہے ۔اور علمائے حرمین شریفین نے دیوبندی کی تکفیر فرمائی ہے۔
(6) جس فرقہ کی تکفیر فرمائی گئی وہ کافر و مرتد ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
(7) اور جو گمراہ بدمذہب ہے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہے مگر اس کے خیال اہل سنت وجماعت جیسا نہیں اسی لئے بدمذہب ہے ۔
(8) کافر مرتد اور بدمذہب دونوں سے میل جول رکھنا شرعاً ناجائز ہے۔
(9) اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص عقیدۃو عملا ہر طرح سنی ہوں ۔مگر وہابیہ کے ساتھ رہتا ہے اور دنیوی تعلقات میل ملاپ رکھتا ہے تو وہ وہابی نہیں کہلائے گا،مگر یہ فعل ضرور اس کا قابل ملامت ہے ۔
واللہ اعلم باالصواب
کتبہ
محمد ثناء اللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
17 ربیع الثانی 1447
10 اکتوبر 2025