Type Here to Get Search Results !

واہ جسٹس چندر چورن صاحب واہ !

واہ جسٹس چندر چورن صاحب واہ !
----------------------
تحریر محمد زاہد علی مرکزی 
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ 
بزرگانِ دین فرماتے ہیں " الناس علی دین ملوکھم " لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں لوگ جب صبح کو بیدار ہوتے اور ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی تو یہ پوچھتے: "گزشتہ رات کون کون قتل کیا گیا؟ کس کس کو کوڑے لگے؟"
ولید بن عبد الملك مال، جائیداد اور عمارتوں کا شوقین تھا، اس کے زمانے میں لوگ صبح ایک دوسرے سے مکانات کی تعمیر، نہروں کی کھدائی اور درختوں کی افزائش کے بارے میں پوچھتے تھے.
سلیمان بن عبد الملك کھانے، پینے اور گانے بجانے کا شوقین تھا، اس کے دور میں لوگ ایک دوسرے سے اچھے کھانے، رقص و سرود اور ناچنے والیوں کا پوچھتے تھے.
جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمه اللہ کا دور آیا تو لوگوں کے درمیان گفتگو کچھ اس قسم کی ہوتی تھی:
"تم نے قرآن کتنا یاد کیا؟
ہر رات کتنا ورد کرتے ھو؟
رات کو کتنے نوافل پڑھے ؟
اس سب سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ عوام اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتی ہے.
بزرگانِ دین نے اسی لیے فرمایا : "الناس علی دین ملوکھم". لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں ، آج کیا نیتا، کیا ابھنیتا ، کیا ڈاکٹر ،کیا انجینئر ،کیا پروفیسر کیا جج ، کیا سائنس داں سب میں بڑا زعفرانی ہونے کی ہوڑ لگی ہے ۔
جج صاحب! انصاف کہاں ہے ؟
نیوز لانڈری کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، جو سری نواسن جین نے کیا، بھارت کے سابق چیف جسٹس جناب جسٹس دھننجے یشونت چندر چوڑ نے بابری مسجد کے بارے میں جو کچھ کہا وہ یہ دکھاتا ہے کہ اس وقت ملک میں کس قدر سازشیں اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے دیے جا رہے ہیں ۔ پوڈ کاسٹ میں ان سے بابری مسجد کے فیصلے کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے کہا کہ اس کی شروعات کس نے کی تھی ؟ یعنی بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھی ،لیکن کورٹ میں کبھی یہ ثابت نہ ہو سکا کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی ۔
 بابری مسجد کی تقدیر تو اُسی دن لکھ دی گئی تھی جب اس مقدمے میں 8 مارچ 1986 کو جسٹس وی ڈی تُلجا پُرکر کی سربراہی والی بنچ نے “رام للا وراجمان” کو ایک قانونی شخصیت (Legal Entity) تسلیم کیا، اور اسے اس مقدمے کا فریق بنا دیا گیا۔
ظاہر سی بات ہے، جن جج صاحبان کا عقیدہ خود رام للا میں ہو، وہ اپنے ہی دیوتا کے خلاف انصاف کیسے کریں گے؟
پھر بھی مسلمانوں نے خون کا گھونٹ پیتے ہوئے عقیدت (آستھا) والے فیصلے کو قبول کر لیا تھا، کاش جج صاحب اس فیصلے کا بھرم رہنے دیتے ،سابق چیف جسٹس کے بیان سے یہ واضح ہو گیا کہ فیصلے میں جو یہ کہا گیا تھا کہ مندر توڑ کر مسجد بنانے کے کوئی ثبوت نہیں ملے، فیصلہ عقیدت کی بنیاد پر دیا جارہا ہے ، مجھے ہمیشہ کھٹکتا رہا کہ یہ الفاظ جان بوجھ کر اس لیے کہے گئے کہ مسلمان اس ملک میں اپنی اوقات جان لیں ۔ ورنہ یہ مارک کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ میرے اس شک کو تین روز قبل چندر چورن کے بیان نے یقین میں بدل دیا ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
(ڈاکٹر کلیم عاجز)
فیصلے کے پانچ جج تھے ، سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ میں جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس دھننجے وائی۔ چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس۔ عبد النظیر شامل تھے، جنہوں نے بابری مسجد کے بارے میں درج ذیل نکات کی بنیاد پر متفقہ فیصلہ دیا:
1. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ بابری مسجد بابر نے نہیں بلکہ اُس کے سپہ سالار میر باقی نے 1528 میں تعمیر کرائی۔
2. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ 1857 سے 1949 تک بابری مسجد میں باقاعدہ نمازیں ادا ہوتی رہیں اور قبضہ مسلمانوں کا رہا۔
3. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ بابری مسجد میں آخری نماز 16 دسمبر 1949 کو ادا کی گئی۔
4. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ 22-23 دسمبر 1949 کو بابری مسجد میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی عمل تھا۔
5. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ مسجد کے گنبد کے نیچے والی زمین رام جنم بھومی ہے یہ ثابت نہیں ہوسکا۔
6. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ زمین پر دعویٰ مِیعاد کے اندر ہے۔
7. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کا انہدام غیر آئینی عمل تھا۔
8. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ بابری مسجد کسی بھی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی۔
9. فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ مسجد کے نیچے موجود ڈھانچہ مندر کا ہے یہ ثابت نہیں کیا جا سکا۔
10. آئین ہند کے آرٹیکل 142 کے تحت سپریم کورٹ کو جو خصوصی اختیار حاصل ہے، اُس کے تحت “مکمل انصاف” کے نام پر بابری مسجد کی زمین ہندو فریق کو دے دی گئی۔
صاف ظاہر ہے کہ فیصلہ حقائق، شواہد اور تاریخی ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 142 کے خصوصی اختیارات کے تحت دیا گیا۔ 
یہ شامِ غم لمبی ہونے والی ہے 
چوں کہ اب سب کچھ کھلا ہونے لگا ہے تو کسی کو پرڈے میں رہنے کی کیا ضرورت ؟ اسی لیے موجودہ چیف جسٹس بی آر گَوَئی بھی اسی راه پر ہیں ، کل کی خبر ہے کہ چیف جسٹس ص کی ماں آر ایس ایس کے پروگرام میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو ہیں ۔ یہ بھی مسلمانوں کو ایک پیغام ہے کہ اب تم کہاں جاؤ گے ،جہاں جاؤ گے ہمیں پاؤ گے ۔
باںرہ مسجد کے ججوں پر انعام و اکرام 
فیصلہ دینے والے تمام جج صاحبان کو اس کے بدلے انعامات ملے… کوئی جج گورنر بنا، کوئی پارلیمنٹ کا رکن، کوئی نیشنل کمپنی لا اپیلیٹ ٹربیونل (NCLAT) کا چیئرمین بنا اور کوئی کسی اور عہدے کے انتظار میں ہے۔
اب جسٹس چندر چوڑ صاحب سپریم کورٹ کے اپنے ہی فیصلے کے خلاف کھڑے ہیں اور انٹرویو میں کہہ رہے ہیں:
1. “بابری مسجد کا قیام بنیادی طور پر ایک اَپَوِ تر (ناپاک) عمل تھا۔”
جب سری نواسن جین نے پوچھا کہ “کیا اپوِتر کرنے کے ذمہ دار ہندو فریق نہیں تھے، جیسے کہ دسمبر 1949 میں مسجد میں مورتیاں رکھنا؟” تو جسٹس چندر چوڑ نے کہا:
“مسجد کا قیام ہی بنیادی طور پر ناپاک تھا۔ بابری مسجد رام مندر توڑ کر بنائی گئی، اس لیے 1949 میں مورتیاں رکھنا غلط نہیں تھا۔”
اسی انٹرویو میں جسٹس چندر چوڑ نے کہا:
“ہندوؤں نے اندر کے چبوترے کو ناپاک کیا، لیکن بنیادی ناپاکی — اُس مسجد کی تعمیر سے متعلق تھی۔ تاریخ میں جو کچھ ہوا، کیا ہم بھول گئے؟ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ پایا تھا کہ مسجد کے نیچے مندر تھا، جسے توڑ کر مسجد بنائی گئی۔”
غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایسا کوئی جملہ موجود نہیں… جسٹس چندر چوڑ جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنے ہی فیصلے کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔
خیر! جس طرح ساری دُنیا نے بابری مسجد کی شہادت دیکھی ویسے ہی نا انصافی بھی دیکھ لی یہ بابری کا انتقام کہا جا سکتا ہے کیوں کہ 
خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا 
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ 
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر 
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا 
بابری مسجد نے اپنے گنہ گاروں کے چہروں سے نقاب نوچ پھینکے ہیں یہ کیا کم ہے ۔
29/9/2025
6/4/1447

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area